دھند 12

زرینہ اسے اپنے ساتھ زبردستی  بڑے ہسپتال  لے  آئی تھی ، پتا نہیں کیوں اسے  یقین تھا کہ ڈاکٹرنی ضرور ان کی مدد کرے گی اور اس کے ہاتھوں زیبی گل کو شفا  نصیب ہوگی 

وہ وارڈ  کا راؤنڈ  لے کر  فارغ ہوئی ہی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ کوئی مریضہ ایمرجنسی میں لائی  گئی ہے . اور زیبی گل کو دیکھ کر جیسے اس نے اپنا دل تھاما تھا 

"میں نے تمھیں سمجھایا بھی تھا  زیبی گل " وہ صدمے کے مارے اتنا ہی کہ پائی."

وہ بہت تشویش ناک صورت حال سے گزر رہی تھی ، ڈاکٹر زینیا شاہ کو یہ اندازہ کرنے میں چند منٹس ہی   لگے تھے 

اسےداخل  کر لیا گیا تھا ،ڈرپ  لگوا کر کچھ  انجکشن اس کے خون میں داخل کر دیے گئے تھے ، وہ جو کر سکتی تھی کر رہی تھی ، مگر یہ سب حل تو نہیں تھا 

اس نے زیبی گل کو روتے ہوے دیکھا تو اس کے پاس چلی آئی 

"کیوں خود پرظلم  کیا   زیبی گل؟"

"وہ دوسری شادی کر لیتا ڈاکٹر " اس کی اردو کچھ ٹوٹی پھوٹی سی تھی "

"وہ تو ویسے بھی کر لے گا جب اس نے کرنی ہوئی، تم نی کیوں اپنی جان پر ظلم کیا. "
"میں نے سوچا    اس  بار سب ٹھیک ہوگا ، ہمارا بچہ ہوگا پھر وہ شادی نہیں کرے گا "
"اسے دوسری تیسری جتنی شادیاں کرنی ہوں گی وہ ضرور کرے گا، اولاد ہوگی تب  بھی کر لے گا ، ان مردوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا زیبی گل، یہ ہر  نئی عورت کے لیے   نئے  ہو جاتے ہیں . فرق تو تم کو پڑے گا ، کیوں ایسے آدمی کے لیے اپنی جان کی دشمن بنی ہوئی ہو. ؟"

اسےروتی  ہوئی زیبی گل کو دیکھ کر تکلیف کے ساتھ ساتھ غصّہ بھی آ رہا تھا ، یہاں عورتیں یونہی جان دیا کرتی تھیں، یہاں مرد یونہی لا پرواہ ہوتے تھے ، اور وہ اس سسٹم کے خلاف بہت کچھ چاہتے ہوے بھی نہیں کر پا رہی تھی 

اس نے زیبی گل کو ہسپتال میں داخل کر لیا تھا ، زرینہ  پریشان تھی، وہ شادی خان کی اجازت کے بغیر  زیبی گل کو یہاں لائی تھی، اب وہ اسے  کیا کہے گی 

--------------------------------------------------------------------------------------------------

اس سہ پہر وہ نتھیا گلی کے اس خوبصورت سے ہوٹل میں ایک سیمینار میں ایک مقرر کے طور پر مد عو  تھی ، گو اسے جانا تو نہیں تھا مگر لوگوں تک اپنی بات پنہچانے کا یہ ایک بڑا پلیٹ فارم تھا ، کچھ میڈیا کے لوگوں نی بھی آنا تھا اور وہ اپنے پروجیکٹ کے لیے کسی  این جی او  کی تلاش میں بھی تھی ، اس لیے چلی آئی تھی 

عام سی رسمی تقریروں کے بعد سیمینار کا اختتام ہو چکا تھا . شام کی چاۓ کا اہتمام اس سو سبز لان میں تھا جہاں سے نیچے وادی میں اترنے والے سرمائی بادل خوب بھلے لگ رہے تھے ، وہ ان کو دیکھ کر یہ سوچتی پھرتی تھی کہ اتنا ڈھیر سارا قدرتی حسن کیسے ایک جگہ اکٹھا کر دیا گیا تھا 

وہ چاۓ  کا کپ ہاتھ میں تھامے اس ریلنگ تک چلی آئی جہاں سے نیچے وادی میں جاتی پگڈنڈیاں   اور چنار کے اونچے درخت جنگل میں بے ترتیب راستے بناتے دکھائی دے رہے تھے 

اسے حسن کھینچتا تھا جیسے  اس وقت اسے یہ منظر کھینچ رہا تھا 

" ہنی یہ تم ہو نا ؟ "

کوئی انگریزی میں  اونچی آواز میں اس سے مخاطب ہوا 

اس نے پلٹ  کر دیکھا اور پتھر ہوتے ہوتے رہ گئی ، سچ ہے کبھی کبھی کچھ لوگ ہمیں وہاں مل جاتے ہیں جہاں انہیں پانے کی کوئی امید نہیں ہوتی .

وہ ویسے ہی  آگے بڑھا جیسے ہمیشہ بڑھتا تھا ، اس نے دونوں شانوں سے زینیا شاہ کو تھاما  اور اس کے ماتھے کو چوما 

زینیا کی جلد کی نرو  اینڈنگ میں جیسے کوئی بجلی کی برق دوڑی  تھی. وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوئی تھی 

یہ وہ لمس تھا کہ جس کی خواہش میں وہ خوب  تڑپی تھی ، جس کی حسرت نے اسے بڑا  ذلیل  کر وایا تھا ، جس کی چاہ  میں وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ آئی تھی ، اپنا گھر، اپنے والدین، اپنی فیملی 

جس کی یادوں میں وہ اتنا روئی تھی کہ اس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھیں ، اب وہاں آنسو نہیں بنتے تھے ، اب وہ صرف اس کے دل کے اندر گرتے   تھے 

وہ شخص جس کی بے وفائی نے  اسے بے اعتباری کے وہ زخم دیے  تھے کہ وہ  اب اپنوں پر بھی یقین نہیں کرتی  تھی 

وہ کتنے آرام سے اس کے روبہ رو تھا ، وہ اس سے یونہی  ملا تھا جیسے درمیان کے یہ سال اور ان میں گزرنے والا وقت جیسے کبھی آیا ہی نہ ہو 

"کیسی  ہو ہنی ، میں یہاں ایک شوٹ کے لیے آیا ہوا ہوں ، اور  کیسی  زبردست بات ہے کہ تم بھی یہاں ہو . چھٹیاں  منانے آئی ہوگی؟" وہ بشاش لہجے میں پوچھ  رہا تھا 

" ہاں فرش ہونے کے لیے اس سے اچھی جگہ اور کیا ہوگی "

"اکیلے یا فیملی کے ساتھ؟"

پتا نہیں وہ کیا پوچھنا چاہ  رہا تھا. زینیا بھی اسے کچھ جتانا چہ رہی تھی شاید اسے قدرت نے آج موقع دیا تھا 

"فیانسی کے ساتھ" 

اس نے ایک لمحے ٹھہر کر زینیا کو دیکھا تھا  اور پھر اس کا ہاتھ تھام کر اس میں پہنی گئی انگوٹھی کو دیکھنے لگا 

"بہت مبارک ہو زینیا ، بہت خوشی ہوئی"

کتنی بیوقوفی تھی اس کی کہ وہ ان آنکھوں میں دکھ کا کوئی سایہ تلاش کر رہی تھی ،مگر  وہاں تو بیتے لمحوں کی یادوں کی پرچھائی  بھی نہیں تھی 

اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ یہ ڈائمنڈ رنگ تو وہ کئی برسوں سے  ویہنتی آ رہی تھی  اور یہ ووہی ہاتھ تھے جنہیں اس نے بے شمار بارتھاما  تھا 

وہ کتنا عام  سا مرد تھا . اور وہ اسے خاص بنانے کے لیے کتنا خوار ہوئی تھی 

"آؤ میں تمہیں اپنے کریو سے ملواؤں " وہ اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا "

وہ لوگ کسی لونگ پلے کی شوٹ کے لیے وہاں اے ہوے تھے ، علی  زبیری کا حسب معمول لیڈ رول تھا . وہ تھا ہی اتنا جاذب نظر ، اور اب تو اتنے سال سکرین پر گزا رنے کے بعد وہ بہت ہی مشہور شخسیت  بن چکا تھا 

وہ بھی ایک وقت تھا جب زینیا شاہ ایک جانی پہچانی ماڈل ہوا کرتی تھی اور جب علی زبیری اور  اس کا پیرساری  انڈسٹری 
میں مشہور ہوا کرتا تھا، یہاں تک کہ گوسپ کالمز میں ان دونوں کی ان دیکھی  شادی کا تذکرہ بڑے شوق سے چھا  پا جاتا تھا 

زینیا خاموشی سے اسے ہنستا مسکراتا اور سب سے باتیں کرتا دیکھتی رہی ، اسے کہیں کوئی تکلیف نہیں ہو رہی تھی، اسے کسی خلش کا احساس بھی نہیں ہو رہا تھا 
وہ بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی کہ اب اس کے دل میں  علی زبیری کے لیے کوئی خاص جذبہ نہیں تھا 

اس کے جذبے اور احساسات اس کے لیے بے حد اہم تھے  وہ انہیں اس عام  سے شخص کے لیے کیسے ضایعے کر سکتی تھی 

اس نےپلٹ  کر وہاں دیکھا جہاں وادی میں اترتی  پگڈنڈیاں تھیں اور دھند تھی 
اور اسے کوئی چہرہ روشن ہوتا دکھائی دیا 

وہ خاموشی سے ، چپکے سے یر دھیرے سے خیال رکھنے والا شخص 

وہ جوخود  اور جس کی فیملی اسیکے  طلبگار ہوے تھے 

اور جنہیں علی  زبیری کی وجہ سے اس نے ایک بار نہیں کئی بار ٹھکرایا تھا 

جس کی نام نہاد  یک طرفہ محبّت میں اس نے کئی سال گنواے تھے وہ اس کے سامنے تھا ، مگر نہیں تھا 

جس کی باوقار توجہ  کو اس نے کبھی اہمیت نہیں دی تھی، وہ یہاں نہ ہوتے ہوے بھی موجود تھا 

یہی فرق تھا 

یہی سچ کے ادراک  کا لمحہ تھا 

اور زینیا شاہ اپنے  آپ سے کوئی ا عتراف کر رہی تھی 

==============================================================


Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden