دھند 29

وہ  بہت خاموشی سے اس کے سرہانے موجود اس کے سانس کے زیر و بم گن رہا تھا ، اس کی بند  آنکھوں کے پیچھے چلنے والے  خوابوں  کے گم شدہ رستے  ڈھونڈ رہا تھا ، جن پگڈنڈیوں پر وہ کھو چکی تھی  وہاں اس کے  نقش پا تلاش رہا تھا 

شب کے ڈھا ئی  بجے اس وقت جب آئی  سی یو کے مریضوں اور اسٹاف میں  کوئی بے چینی نہی تھی ، وہ بہت خاموشی سے زینیا شاہ کے بستر کے کنارے آ کھڑا ہوا تھا، چوبیس سے زیادہ گھنٹے گزر چکے تھے ، وہ ہوش میں نہیں آئ  تھی اور اتنے ہی گھنٹے ہو چکے تھے جب وہ ہسپتال سے گھر نہیں گیا تھا ، وہ اسے یوں چھوڑ کر کیسے جا سکتا تھا 

عمر کو خود پر جتنی حیرت  آج تھی پہلے نہیں ہوئی تھی. وہ اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی جذباتیت سے بہت دور پتا تھا ، وہ بہت پریکٹیکل انسان تھا . نرم دل ہونا، ایک اچھا رحم دل ڈاکٹر ہونا کچھ اور تھا ، اور کل سے اس وقت تک زینیا شاہ کی بیماری  سے وجود میں  در انے والی اس کیفیت کا سلسلہ ہی کچھ اور ہی تھا ا 

بعض  لمحے زندگی میں آتے ہی اسی لیے ہیں کہ انسان وہ جان لے جو اب تک نہیں جان پایا تھا 
ڈاکٹر عمر کے لیے یہی لمحہ آگہی کا تھا، وہ وہ جان رہا تھا جس کے ماننے کو جھٹلاتا آ رہا تھا 

اس نے کچھ آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر آ جانے والے بالوں کو دھیرے سے پیچھے کیا 
اس لمحے شدّت سے اس کا جی چاہا  کہ وہ جھٹ سے آنکھیں کھول کر اس سے خوب لڑے ، کہ اس نے یوں اسے چھوا ہی کیوں ، وہ ایسی ہی تھی، محرومیوں  کے ڈسے ہوے لوگ یونہی ہوتے ہیں ، انہیں محبتیں اور شدّتیں ملنے لگیں تو اس پر بھی شک کرنے لگتے ہیں 

ڈاکٹر عمر کے ذہن  پر گزرے کئی برس تیزی سے گزرنے لگے 

ہنی شاہ ، جو احسن انکل کی بیٹی اور اس کے دوست داور کی بہن تھی، جس کا اس نے ہمیشہ ذکر سنا تھا مگر اس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی کیوں کہ وہ مری  کانونٹ میں پڑھتی تھی اور  گرمیوں یا سردیوں کی تعطیلات میں  وہ ملک سے باہر چلا جایا کرتا تھا 

اس کے ذھن میں ہنی شاہ سے متعلق تجسّس جگانے والی اس کی امی تھیں یا شاید دونوں والدین کیو ن  کہ  وہ اکثر اس کا ذکر بہت مختلف اور خصوصی انداز میں کیا کرتے تھے ، چوں کہ عمر کا میڈیکل میں داخلہ ہو چکا تھا اور  وہ پڑھائی کے سلسلے میں امریکا جا رہا تھا ، وہ اس کی نسبت طے کر دینا چاہتے تھے اور چنی جانے والی لڑکیوں میں ہنی شاہ کا نام سر فہرست تھا 

عمر کے شدید احتجاج پر یہ معاملہ موخر کر دیا گیا تھا مگر اس کے ذھن میں ہنی شاہ سے متعلق  ایک بیج بو دیا گیا تھا ،  جس کی جڑیں انجانے ہی میں اتنی گہری ہو چکی تھیں کہ کب وہ خوبصورت درخت بن کر اس کی ذات کے اندروں میں پلنے لگا، وہ جان ہی نہیں پایا تھا 

پھر اسلام آباد واپسی پر بھی وہ کبھی اس سے نہیں مل پایا ، چند سالوں بعد جب وہ اپنی گریجویشن کے نزدیک پہنچ چکا تھا  اسے علم ہوا کے وہ بھی میڈیکل کی طالبہ بن چکی تھی اور ماڈلنگ کے شوق بھی پورے کر رہی تھی 

عمر کے لیے اب اسے دیکھنا آسان تھا، انٹرنیٹ پر وہ ہر اس میگزین اور ایڈز اور کیٹ واک کا ریکارڈ رکھنے لگا جہاں وہ مجود ہوتی 

علی زبیری اس کی زندگی کا وہ واحد حصّہ تھا جس سے وہ بڑے عرصے تک بے خبر رہا ، ان دنوں وہ اپنے فیلو شپ میں بے انتہا مصروف تھا جب اسے امی کے زریے اس کی ہسپتال میں داخلے کی خبر ملی ، مگر یہ اس کے لیے صرف ایک خبر تھی، دل پر کوئی بھی اثر نہ کرنے والی خبر، کیوں کہ ہنی شاہ اس کے لیے صرف ایک نام تھا، کوئی احساس نہیں 

وہ جانتا تھا، جس ماحول میں وہ موو کرتی ہے اس کے لیے یہ سب ایک معمول کا واقعہ ہے ، ہاں احسن انکل کی فیملی کے لیے یہ ایک صدمہ تھا جس کے سلسلے میں وہ داور  سے مستقل رابطے میں تھا 

اور اب ان چند مہینوں میں جب سے اس نے ہنی شاہ کی ڈاکٹر زینیا شاہ کے روپ میں دیکھا  اور محسوس کیا تھا، اب صورت حال بلکل مختلف تھا 
اب اس سرے قصّے میں ڈاکٹر عمر نہ چاہتے ہوے بھی شامل ہو چکا تھا ، کیوں کہ زینیا شاہ اب صرف ایک نام نہیں تھا 
خون میں گردش کرنے والا، ہر دم رواں رہنے والا،  احساس تھا 

====================================================

دھند   

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden