دھند 33

کچھ لوگوں کے آنسو ہم سہ   نہیں سکتے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ ہمیں بھگو رہے ہوں 
ڈاکٹر عمر حیات خان نے بیشتر مریضوں کے گھر والوں کو ہسپتال  کی  دیواروں  کے اندر روتے ہوے دیکھا تھا مگر ان   کے آنسو  ان پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے، مگر زینیا شاہ کو داور کے ساتھ لگ کر  یوں روتا  ہوا دیکھنا اس کے  بس سے باہر تھا  وہ  کچھ فاصلے  پر موجود  ایک اور مریض کا موا ینا کرنے میں مصروف ہو گیا ، مگر توجہ کا باٹنا اتنا آسان ہوتا تو پھر مشکل کیا تھی 
 پتہ  نہیں کتنے ہی لمحے یوں ہی بیت گئے ، وہ اسٹاف  پیٹر  کے ساتھ  ان  عمر رسیدہ مریض کی  دوا  میں ردو بدل کی بات  طے  کر رہا تھا جب اس نے  زینیا کو کہتے سنا 
"کیا میں بالٹی مور میں ہوں؟" 
اس کا ذہن ابھی اپنے ارد گرد  سے مکمل طور پر شناسا نہیں ہو  پایا تھا ، دوسرے داور  اور عمر کی بہ یک وقت مجودگی بھی اس کے لیے اچھنبے  کی بات تھی 
عمر نے اس کی آواز سن لی تھی اور اسے خوشی تھی کہ اس کا ذہن  اب آہستہ آہستہ ہوش کی سرحد کے قریب ہوتا جا رہا تھا 
وہ دونوں کو باتیں کرتا ہوا چھوڑ کر  احسن شاہ بخاری کو بلانے چل دیا ، 
=====================================================
عجیب  بات تھی  کہ جب وہ  ہوش و خرد سے  بیگانہ تھی  تب وہ  بے چین روح کی  مانند اس کے  گرد منڈلاتا پھرتا تھا   اور اب  جب وہ ائی  سی یو سے کمرے میں منتقل  کر دی گئی تھی تو وہ بے فکر ہو کر اپنے دیگر کاموں میں مصروف ہو چکا تھا ، ڈاکٹر حیدر  اب زینیا شاہ  کے  فالو اپس لے رہے تھے اور عمر  کو  مستقل  اپ ڈٹ بھی   کر رہے تھے

اگلا سارا دن بھی او پی ڈی  نپٹا تے گزر گیا تھا ، وہ اس وقت فریسغ ہوا جب شام ، شب کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی، وہ  سٹاف کو کافی آرڈر کرنے کی لیے نرسنگ کاونٹر پر آیا تھا جب ڈاکٹر حیدر اسے ملے تھے

" سر آپ مصروف نہ ہوں تو مجھے ڈاکٹر زینیا  کا کیس ڈسکس کرنا تھا " حیدر حالاں کہ  عمر سے کافی جونیئر تھا مگر  وہ اتنا قبل تھا کہ  ڈاکٹر عمر اسے زینیا کا کیس سونپ کر بے فکر ہو چکا تھا

"سر ڈاکٹر صاحبہ  ڈسچارج ہو کر گھر جانا چاہتی ہیں ، وہ کہ رہی ہیں میں بلکل ٹھیک ہوں  ہسپتال میں روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا " میں نے انہیں سمجھانے  کی کافی کوشسش کر لی ہی مگر  وہ مجھے لاما ہو جانے کی دھمکی بھی دے چکی ہیں ، میں تو سخت پریشان ہون سر، پلیز آپ ان کو خود سمجھا لیں ، آپ کی بات ماں لیں گی وہ، ابھی وہ اس اسٹیٹ میں نہیں کہ ہم انہیں گھر جانے دے سکیں "

عمر مسکرا دیا " تم پریشان  نہ ہو حیدر ، میں دیکھ لیتا ہوں ، ویسے کوئی بھروسا  نہیں کہ مادام  اس وقت تک لاما ہو بھی چکی ہوں "

"سر  وہ ایک ڈاکٹر ہوتے ہوے ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟"

"وہ سب کچھ کر سکتی ہیں " عمر کا قہقہہ بہت بے ساختہ تھا


======================================

اس نے    دھیمی سی دستک دی، ایک بار اور  دوسری بار ، تیسری بار وہ اندر داخل ہو چکا تھا ،
سامنے وہ آنکھوں پر با یاں بازو رکھے خاموش لیتی تھی، یا شاید سو رہی تھی ، کمرنے  میں انتہائی مدھم روشنی تھی  ، انی کہ اس میں عمر حیات کے لیے  اس کو غور سے دیکھنا بھی مشکل تھا
ہاتھ بڑھا کر اس نے ، اس کے سرہانے کچھ اونچائی پر نسب  بلب روشن کر دیا ،   اسی سمے زینیا نے بازو آنکھوں سے ہٹا کر اسے دیکھا تھا

ہسپتال کے مخصوص مریضوں والے لباس میں وہ  کوئی بھی مریضہ لگ رہی تھی مگر وہ زینیا شاہ نہیں لگ رہی تھی جس نے پہلی ملاقات میں ڈاکٹر عمر کو  شدید متاثر کر دیا تھا

"کسی ہو؟"

" بہت اچھے معالج  ہیں آپ ،  کتنے گھٹوں بعد راؤنڈ  لیتے ہیں وارڈ  کا؟ :

لہجے میں اتنی تپش ضرور تھی  کہ وہ سیدھی عمر کے دل تک پنہچی تھی

" مجھے علم تھا کہ آپ  ریکور کر رہی ہیں ، اس لیے کہ آپ کو  ذمے دار لوگوں کے حوالے کیا ہوا تھا "
"  اور جن ذمے دار لوگوں کے آپ نے مجھے حوالے  کیا  ہوا تھا ان لوگوں کے پاس  اتھارٹی بھی نہیں ہے  کہ مجھے ڈسچارج سکیں " 

سچ تھا ، کسی  ذہین خاتون جو کہ با علم بھی ہو  اور طرح دار بھی، ، سے بحث  کرنا بلکل آسان نہیں ہوتا ، عمر حیات خان بری طرح پھنس چکا تھا 

مجبوراً  اسے اپنی  پروفیشنل زبان  کا  سہارا لینا پڑا 

"ڈاکٹر زینیا ابھی آپ کی صحت اس مرحلے  پنہچی کہ ہم آپ کو  گھر جانے کی اجازت دے سکیں، ابھی کچھ  تفصیلی  مواینہ  اور مزید لیب ٹیسٹ ضروری ہیں  جن کے بعد ہی ہم  فیصلہ لے سکیں گے ، آپ بہتر گھنٹوں کی بے ہوشی کے بعد جاگی ہیں  اور آپ کے نیورونس ابھی  مکمّل طور پر صحتیاب نہیں ہوے ہیں "

"مجھے اپنی فائل دیکھنا ہے " اگلا سوال اس سے بھی مشکل  تھا "
اب پریشان  ہونے کی باری  عمر کی تھی 

" کیا دیکھنا چاہتی ہو فائل میں، مجھ سے پوچھ لو  زینیا " عمر نے اس کے سرہانے بیٹھتے ہوے  رساں سے کہا 

میں اپنی فائل کیوں نہیں دیکھ سکتی ڈاکٹر عمر؟" میں ایک ڈاکٹر ہوں آپ شاید بھول رہے ہیں "

اگر آپ ڈاکٹر نہیں ہوتیں تو شاید میں فائل آپ کے ہاتھ میں دے دیتا ، اس وقت میں کسی بھی قسم کے ذہنی دباؤ سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں تمھیں زینیا "

" مجھے آپ کی لاجک سمجھ نہیں آ رہی ڈاکٹر عمر، میں گھر جانا چاہتی ہوں پلیز "

اس کے لہجے کی بیزاری صاف عیاں  تھی 

ٹھیک ہے  مجھے چند لمحے چاہیے اس فیصلے کے لیے ، لیکن شرط یہ ہے کہ تم خاموشی سے میری بات مانو گی اور جو کہوں گا   وہ کرتی  جاؤ  گی " زینیا نے جواب میں کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا مگر عمر کے چہرے پر موجود تاثرات دیکھ کر خاموش ہو گئی 

عمر  بستر سے اٹھ کر اس کے دائیں  جانب آ گیا اور ایک ماہرنیورو لوجست کی طرح اس کو ہدایت دینے لگا وہ خاموشی سے سارے  ٹیسٹ کرتی چلی گئی ، کبھی انگلی سے ناک کو چھوا، کبھی آنکھوں کو گول گول گھمایا ، وہ ڈاکٹر تھی اور اس کے پاس ایعترض   کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی 

 "اٹھو "
"جی ؟

"بستر سے نیچے پیر رکھو اور کھڑی ہو جاؤ "
وہ اب صرف ایک ڈاکٹر تھا ، اور زینیا ایک مریضہ  ، وہ اٹھ کر بیٹھی اور آہستگی سے بستر سے نیچے اترنے  لگی 

اسے ایک دم آنکھوں کے آگے  اندھیرا سا محسوس ہوا تو اس نے نزدیک موجود میز کا سہارا لیا ، عمر صرف خاموشی سے 
اسے دیکھتا رہا، اس نے اسے سہارا دینے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی 

وہ  ڈاکڑ تھی اور وہ جو کچھ  اس پر ثابت  کرنا  چاہ  رہا تھا وہ اتنا آسان بھی نہیں تھا 

اس نے  سلیپپرز میں پیر ڈالے اور دھیرے سے بستر کا سہارا چھوڑ کر آگے کو قدم بڑھاے 
عمر وہیں اس کے نزدیک    دونوں بازو سینے پر باندھے  کھڑا اسے دیکھ رہا تھا 
چوتھے قدم کے بعد وہ یک دم ٹھہر گئی ، عمر کی سانس ایک لمحے کو ٹھہری ، مگر وہ بھی زینیا شاہ  تھی ، اور وہ ڈاکٹر عمر پر یہ ثابت  کرنا چاہتی تھی کہ وہ بلکل  نارمل ہے، اس لیے  چند لمحوں بعد پھر آگے کو بڑھنے لگی 

مگر وہ غلط تھی، اس  کا ذھن ابھی مکمّل م طور پر اس کے   جسم  کو سنبھالنے میں ناکام ہو رہا تھا اور یہی وہ بات تھی جو عمر  اسے سمجھانے  کو کوشش کر رہا تھا 

اس  کی آنکھوں کے اگے ایک بار پھر اندھیرا پھیلا تھا اور اس نے سہارے کی لیے اپنا ایک بازو آگے کو بڑھایا تھا، وہ گرنے کو تھی  مگر عمر اس صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا، اس نے فورا  آگے بڑھ کر اسے تھام لیا ورنہ اگر وہ گرتی تو بہت بری طرح زخمی ہو سکتی تھی 

وہ آہستگی سے اسے تھام کر بستر تک لے آیا اور اور اسے لٹانے کے بعد وہیں اس کے سرہانے بیٹھ گیا تھا 

"تم ٹھیک ہو زینیا؟: وہ اس  کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا 

"ٹھیک ہوں "

"یہی بات تم بغیر بحث  کے بھی مان  سکتی تھیں  نان "  اب پتا لگا  کیوں کیہ  رہا ہوں  کہ  گھر نہیں جا سکتی ہو ابھی ؟"
 عمر کو لگا وہ    رو دے گی 

" میں یہاں  نہیں رہ سکتی  عمر، پلیز ، یہاں سب اتنا ڈپرسسنگ  ہے ، اور میں اتنی اکیلی ہوں، مجھے گھر جانا ہے "

اس کی آنکھوں سے آنسو بیہ  رہے تھے اور یہ وہ نہیں دیکھ سکتا تھا 

"او کے زینیا، کل تک کا وقت دو مجھے ، لیکن تم روو  گی نہیں اب، اور اگر روئیں  تو ایک ہفتہ مزید یہاں ٹھہرنا ہوگا " وہ اس  کے چہرے پر آے  بالوں کو پیچھے کرتا ہوا کہ رہا تھا  اور زینیا اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کو کوشش کرنے لگی "

==========================================


Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden