دھند 34

اس رات  دس بجے کے بعد وہ اکیلی نہیں رہی  تھی ، داور   اور لالہ  پھول اور مختلف قسم کے کھانے ، جوس اور سوپ  لے کر اس کے کمرے میں آ گئے تھے ، وہ کچھ اداسی اور کچھ دوائیوں کے زیر اثر  مدہوش سی تھی  داور نے اسے   جھنجھوڑکر جگایا 
"اور کرو شکایتیں ہماری، ہم نے تمھیں اکیلا چھوڑا  ہوا  ہے نا "
میں نے کب کی شکایت؟" وہ نیند سے جاگتی  ہوئی بولی " 

" بس رہنے دو ہنی ، تمھیں یہی  لگتا   ہے نا کہ کسی کو تمہاری پرواہ نہیں ہے 
" یار  جیٹ لیگ  تھا ، سویا پڑا  ہوں جب سے گھر گیا تھا، مگر پلان یہی تھا کہ رات یہیں تمہارے پاس ر کوںگا "

وہ کچھ نہیں بولی، خاموشی سے اسے دیکھتی رہی

"  اب اٹھو بھی ، فریش  ہو جاؤ  پھر مل کر ڈنر کرتے ہیں، میں سب تمہارے پسندیدہ کھانے  لے کر آیا ہوں "
"لیکن مجھے کوئی بھوک نہیں ہے  دانی "

"ہنی ،جو میں کہ رہا ہوں وہ کرتی جاؤ  بس، بھوک خود لگنے لگے گی "
اس نے سہارا دے کر اسے اٹھایا اور واش روم تک پنہچایا ، اور لالہ  کو کھانا  نکالنے  کی ہدایت دیتے ہوے فون پر مصروف ہو گیا

جب تک ہنی شاہ واپس اپنے بستر تک واپس آئ ، لالہ  کھانا لگا چکے تھے ، داور  نے اسے وایٹ  ہاٹ  اینڈ سار  سوپ لا کر دیا ، جو عام  حالات میں زینیا کے لیے  بہت پسندیدہ ہوتا مگر اس  وقت   اسے کچھ بھی  رہا تھا 
"میں یہ سب نہیں سکتی داور ، میں تو بیمار ہوں نا "   
"اچھا تو آپ بیمار ہیں اور  یہ سب کھانا نہیں سکتیں؟، ابھی پوچھتا ہوں آپ کے ڈاکٹر سے کہ آپ کیا  ہیں اور کیا نہیں؟"

"اس وقت تو نہ پچو کل پوچھ  لینا نا ، کافی دیر ہو گئی ہے اب ، "

"نہین  میں تو ابھی پوچھوں گا، وہ فون کان سے لگاے  کہنے لگا." 

اسی لمحے کسی فون کی رنگ ٹون  سنائی دینے لگی ، وہ عمر حیات تھا جو فون ہاتھ میں لئے کمرے میں داخل ہوا تھا 
"آئیے  ڈاکٹر صاحب ، ایک مسلہ  تو حل کریں "

"میں نلکل کوئی مسلہ  حل نہیں کر رہا اس واقت ، شدید بھوک لگی ہے مجھے، تم تیمارداری کرو ،میں تو پہلے کھانا کھاؤں  گا. آئیے لالہ  بسماللہ  کریں"
گہری نیلی تی شرٹ اور جینز میں وہ بہت فریش  لگ رہا تھا ، زینیا کو سمجھ میں آنے لگا تھا کہ یہ سارا پلان داور  اور عمر کا مشترکہ تھا ، اور وہ آج اس کے ساتھ ڈنر کرنے کا پروگرام بنا کر آے  تھے ، وہ  بڑی  حیرت زدہ سی ہو کر خوش ہونے لگی ، اسے تو اب بون مانگے ملنے والی چھوٹی  چھوٹی  خوشیوں پر بھی یقین نہیں اتا تھا 

اس نے خاموشی سے ہاتھ بڑھا کر سوپ کا پیالہ لیا اور پینے لگی، داور  مسکرا کر میز کی جانب بڑھ گیا 

اور پھر خوب زورو شور  کی گفتگو میں دونوں نے کھانا کھایا، لالہ کھاتے ہوے مسکراتے رہے اور وہ خاموشی سے دل  میں خوش ہوتے ہوے ان لوگوں کو دیکھتی رہی جو اس کے اپنے تھے اور اس کا بغیر کہے خیال رکھ رہے تھے ، اچانک ہی اس کی تنہائی مسکرانے لگی تھی ، اس نے پر سکوں ہو کر آنکھیں بینڈ کی اور سر پیچھے ہیڈ  ریسٹ سے ٹکا  دیا 

=================================

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden