Gulzar once again


گلوں کو سننا ذرا تم، صدائیں بھیجی ہیں
گلوں کے ہاتھ بہت سی، دُعائیں بھیجی ہیں

جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں
ہمارا دل ہے، اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں

تمہاری خشک سی آنکھیں، بھلی نہیں لگتیں
وہ ساری یادیں جو تم کو رُلائیں، بھیجی ہیں

سیاہ رنگ، چمکتی ہوئی کناری ہے
پہن لو اچھی لگیں گی، گھٹائیں بھیجی ہیں

تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں
سزائیں بھیج دو، ہم نے خطائیں بھیجی ہیں

اکیلا پتہ ہوا میں بہت بلند اُڑا
زمیں سے پاؤں اُٹھاؤ، ہوائیں بھیجی ہیں

_______ گلزار

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden