The best solitary confinement to shed tears is when you are alone Alone on a prayer mat Alone on a driving seat Alone in a-train to a farther destination Alone in a valley where you cry aloud and your echo cries with you
میں اس وقت سے ڈرتی تھی کہ مجھے صبر آجائے ایک عرصہ تک میں سوچتی رہی کہ یہ سب میرے بس میں ہے گفتگو، بحث ، لڑائ ، جدائ سب ٹھیک کر دے گی لیکن کچھ نہیں بدلا چار سال کی اذیت کے بعد میں نے ہار مان لی میرے بس میں تو کچھ بھی نہیں کسی کے جذبے بدل دینا کسی کا دل بدل دینا یہ تو صرف اللہ کے بس میں ہے اس لیے اب صبر کے علاوہ کوئ راستہ نہیں اب میں خاموشی سے اس وقت کا انتظار کروں گی جب میری ہر اذیت کا بدلہ میں اللہ مجھے کوئ بہتر صلہ دے گا صرف اس کی محبت سچ ہے باقی سب کھوٹ
My love for you is calm like a sea in winters It’s deep and silent It doesn’t need to be expressed anymore It wants to stay quiet and calm It doesn’t need anything from you in return It will be there forever Except that The moon over the sea Will never see us together
کبھی کبھی زندگی اتنا تھکا دیتی ہے کہ انسان کو چپ لگ جاتی ہے وہی لوگ جن سے باتیں کرتے ہم نہیں تھکتے انہی لوگوں کے آگے پھر صرف خاموشی بولتی جذبے بہت نازک ہوتے ہیں ایک بار دو بار کی تلخی سے ٹوٹ کر پھر زندہ ہو جاتے ہیں لیکن بار بار کی ٹوٹ پھوٹ انہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتی ہے پتہ نہیں اب یہ زندگی کس طرف لے کر جائے گی نہ اب کوئ جستجو ہے نہ کوئ خواہش ہے باقی اب صرف عمر گزاری جائے گی
آج میں ان راستوں پر بے مقصد گاڑی دوڑاتی رہی جن پر کبھی ہم ساتھ چلے تھے وہی چلچلاتی دھوپ تھی وہی سڑک مگر سب کچھ اجنبی تھا وہی نرسری تھی جسکی چھاؤں میں کتنے پودوں کو ساتھ چھوا تھا مگر آج وہاں تپتی دھوپ تھی اور پت جھڑ کا موسم تھا ویسا ہی موسم جو مجھ پر چھایا ہوا ہے اور چھایا رہے گا
زندگی میں بہت زیادہ صبر کرنے والے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں اور خوشیوں کے لیے تر سے ہوے لوگ زبان بندی کے دکھ سے گزرنے والے لوگ محبت سے خالی زندگی میں رہ کر محبتوں کے خواب بننے والے لوگ سسک سسک کر ترس ترس کر وقت کے ہاتھوں ستم زدہ لوگ جنہوں نے بچپن سے بڑے ہونے تک کبھی اپنی پسند کی چیز کی فرمائش تک نہ کی ہو کہ کہیں کسی کو برا نہ لگ جائے ان لوگوں کی زندگی میں اچانک سے خوابوں کی تکمیل ہوتی دکھائ دینے لگے اچانک سے بے غرض محبتوں کی برسات ہونے لگے کوئ ایسا رشتہ بن جائے جہاں صبر نہ کرنا ہو جہاں جیسا چاہو وہی سب موجود ہو اور جہاں ہمیشگی کے وعدے ہوں اور جہاں صرف سچ ہو اور جھوٹ کا سایا تک نہ ہو اس خواب میں شکن آجائے اس رشتہ میں ملاوٹ ہو جائے جہاں امید کی جائے کہ اس تبدیلی ہر آپ صبر کریں لوگ بدل جائیں رویہ بدل جائیں اور وہ انسان جو ہمیشگی کی خوشی اس ایک صرف اسی ایک رشتہ میں پا رہا تھا وی ششدر رہ جائے وہ اس ایک تعلق میں ہی تو صبر اور برداشت نہیں کرسکتا کوئ معمولی سی تبدیلی بھی نہیں سہ سکتا پھر اس کے پاس صرف ایک راستہ بچتا ہے اس رشتے سے دستبردار ہونے کا راستہ اپنی خوشیوں کو دفن کر دینے
دل مضطرب کوئی اسم ہو جسے پڑھ کے کم ہو ملالِ جاں جسے پھونک کر یہ اداسیاں ذرا کم لگیں وہ فشارِ رنج ہے روح میں کہ فضائیں سبز قدم لگیں میں ہنسوں تو سارے جہان کو مری ہنستی آنکھیں بھی نم لگیں دلِ مضطرب کوئی چارہ گر جو اسیرِ غم کی دوا کرے ہو ذرا سکون خدا کرے جو تھمی تھمی سی ہیں دھڑکنیں انہیں اب نہ کوئی ملال ہو دھرے سر یوں سینے پہ چارہ گر کہ یہ سانس پھر سے بحال ہو دلِ مضطرب مرے آسماں سے یہ تیرگی نہیں ہٹ رہی کوئی گرد سی ہے ملال کی نہ وہ گھٹ رہی ہے نہ چھٹ رہی دلِ مضطرب کوئی نقش ہو جو بصارتوں میں کشید ہو غمِ زندگی سے کہو کہ اب مجھے خوشبوؤں کی نوید ہو کوئی چاند چہرہ دکھائی دے تو اداس شخص کی عید ہو دلِ مضطرب کوئی اسم ہو۔۔۔۔۔۔۔
کبھی بن روئے آنسو دیکھے ہیں؟ وہ جو دل پر مسلسل گرتے رہتے ہیں جیسے اس میں سوراخ کر دیں گے میری آنکھیں اور دل دونوں تھک چکے ہیں اور میں صرف چل رہی ہوں ایک جسم جو روح کے سوا ہے اور روح جس پر ایک بوجھ ہے