بہت دن ہو گئے ہیں کسی آرزوے نا رسا کی تشنگی کے کرب کو جھیلے کسی آواز یار دلبراں کی نغمگی سے سماعت کو بہلاے اب بہت دن ہو گئے ہیں کسی خواب کے خوش رنگ صحن میں سترنگی رنگولی سجاے کسی ہمدم دیرینہ کی مہکتی قربتوں میں زندگی کی اک شام چراے اب بہت دن ہو گئے ہیں اماوس کی گہری دبیز راتوں میں بے سبب بے چین پھیرے لگاے کسی شجر کی شاخ سے جھانکتے چاند کو نظروں میں سموے اب بہت دن ہو گئے ہیں سرما کی ٹھٹھرتی خاموش شب میں کسی پرانی یاد کو پکارے کافی کے دھویں میں ابھرتی ہوئی تصویر سے تصور کو بہلاے اب بہت دن ہو گئے ہیں نازش امین