زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی




کسی  چڑیا کے گیتوں کو
کسی تتلی کے بوسے کو
کسی گڑیا کے جوتوں اور جرابوں کو
کسی لڑکے کے خوابوں کو
کسی معصوم فطرت کو
کسی کم سن شرارت کو
محبت کو
کبھی دیمک نہیں کھاتی !

پرانی خانقاہوں پر
نئے وعدوں کی رسموں کو
جدائی کے جنم دن کو
وصالی رت کی راتوں کو
بچھڑ جانے کی باتوں کو

جدائی کے پرندے کو
پرندے کے پروں پر دور تک پھیلے سرابوں کو
سرابوں کے کناروں پر
کھڑے خاموش برفیلے پہاڑوں کو
پہاڑوں سے بڑی تنہائی کے غم کو

بڑے غم کی کتابوں کو
کتابوں پر ٹپکتےآنسوؤں میں
بھیگتی راتوں کے جنگل کو
سیہ راتوں میں روشن دن کے خوابوں کو
صداقت کے نصابوں کو
گھنی نظموں کے جنگل میں 
نئے رنگوں کے پھولوں کو
نئی خوشبو میں بھیگی مورنی کو
رقص کرتے مور کے دکھ کو

فنا کے دھوپ زاروں میں
خوشی کی برف کے غم کو
ذرا سی زندگی کو
اور بہت سی موت کو دیمک نہیں کھاتی
کبھی دیمک نہیں کھاتی !

(علی محمد فرشی)

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden