٢١دھند
وہ کراچی ائیرپورٹ پر اپنی فلائٹ کے منتظر تھے جب انہوں نے وہ فون کال رسیو کی.
اس نمبر سے آنے والی کال کا جواب دینے میں وہ کبھی تاخیر نہیں کرتے تھے
"ڈیڈ " اس کی روتی ہوئی آواز نے ان کی سانس روک دی "
ہنی کیا ہوا میری جان ؟" اس طرح روتے ہوے تو انہوں نے اسے کبھی نہیں سنا تھا ، ان کی بیٹی تو بہت بہادر تھی ، وہ" تو خود اسے دیکھ کر جینے کا حوصلہ کرتے تھے
وہ اس قدر رو رہی تھی کہ اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا
"I lost her dad"
"کون؟" کس کے بارے میں بات کر رہی ہو بیٹا" وہ اتنا تو جان گئے تھے کہ وہ اپنی کسی مریضہ کے بارے میں بتا رہی تھی
"میں اسے نہیں بچا سکی ڈیڈ ، میں نے بہت کوشش کی ، میں نے اسے بہت سمجھایا، وہ تو سمجھ گئی مگر اس کا شوہر ، اس نے اسے مار دیا اور میں اسے نہیں بچا سکی
وہ بے ربط بول رہی تھی ، اس کی آواز بکھر رہی تھی اور احسن شاہ بخاری کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اڑ کر اپنی بیٹی کے پاس پہنچ جایئں
انہیں علم تھا کہ زینیا کو اپنے مریضوں سے ایک خاص لگاؤ تھا لیکن وہ اس حد تک خود کو نڈھال کر لے گی یہ ان کی سوچ کے احاطے سے باہر تھا
"مجھے نفرت ہے سب سے ڈیڈ ، زیبی گل کے گھر والوں سے، اس سیٹ اپ سے جہاں ہم ایک مریض کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ، جہاں زندگی اتنی ارزاں ہے، مجھے نفرت ہے اپنے آپ سے ڈیڈ کہ میں اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکی.
وہ ہچکیاں لیتے ہوے کہتی رہی
"مجھے یہاں نہیں رہنا ، مجھے آ کر لے جایں ڈیڈ "
کیا انہوں نے ٹھیک سنا تھا؟ زینیا واپس گھرآنا چاہتی ہے ؟ انہیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ ان الفاظ پر خوش ہوں یا اس کی حالت
پر افسردہ ہوں
" ہنی میں آ رہا ہوں ، بس تھوڑا سا انتظار کرو ، کراچی سے آدھے گھنٹے میں فلائی کر جاؤں گا ، چند گھنٹوں بعد ہم ساتھ ہوں گے ، میری لالہ سے بات کرواؤ"
جانے کیا ہدایت دین انہوں نے لالہ کو ، اسے کچھ ہوش نہیں تھا ، وہ بس اس جگہ سے کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی
لالہ اس کی حالت دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تھے ، انہیں خدشہ تھا کہ کہیں زینیا کو کچھ ہو نہ .جا ے اگر وہ خود احسن شاہ کو کال نہ کرتی تو انہوں نے ہر حال میں ان سے رابطہ کرنا ہی تھا
کبھی یہی باپ تھا جس سے شدید اختلاف اور ناراضگی کی حالت میں اس نے گھر کو خیر باد کیہ دیا تھا اور آج جب ہر راستہ بند ہوتا دکھائی دیا تو اس نے اسی باپ کو پکارا تھا ، خون کے رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں ،درمیان میں آنے والی سب ناراضگیاں دھری رہ جاتی ہیں اور وہ اپنا آپ بڑی خاموشی سے منوا لیا کرتے ہیں
سبز گھاس پر بیٹھے گھٹنوں کے گرد ہاتھ لپیٹے کھلے بالوں میں سر جھکاے ، وہ اپنے باپ کی منتظر تھی
زیبی گل کی موت نے زینیا شاہ کو بہت اندر تک ہلا دیا تھا ، شاید زندگی کوئی نیا موڑ کاٹ رہی تھی
===============================================================
اس نمبر سے آنے والی کال کا جواب دینے میں وہ کبھی تاخیر نہیں کرتے تھے
"ڈیڈ " اس کی روتی ہوئی آواز نے ان کی سانس روک دی "
ہنی کیا ہوا میری جان ؟" اس طرح روتے ہوے تو انہوں نے اسے کبھی نہیں سنا تھا ، ان کی بیٹی تو بہت بہادر تھی ، وہ" تو خود اسے دیکھ کر جینے کا حوصلہ کرتے تھے
وہ اس قدر رو رہی تھی کہ اس سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا
"I lost her dad"
"کون؟" کس کے بارے میں بات کر رہی ہو بیٹا" وہ اتنا تو جان گئے تھے کہ وہ اپنی کسی مریضہ کے بارے میں بتا رہی تھی
"میں اسے نہیں بچا سکی ڈیڈ ، میں نے بہت کوشش کی ، میں نے اسے بہت سمجھایا، وہ تو سمجھ گئی مگر اس کا شوہر ، اس نے اسے مار دیا اور میں اسے نہیں بچا سکی
وہ بے ربط بول رہی تھی ، اس کی آواز بکھر رہی تھی اور احسن شاہ بخاری کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اڑ کر اپنی بیٹی کے پاس پہنچ جایئں
انہیں علم تھا کہ زینیا کو اپنے مریضوں سے ایک خاص لگاؤ تھا لیکن وہ اس حد تک خود کو نڈھال کر لے گی یہ ان کی سوچ کے احاطے سے باہر تھا
"مجھے نفرت ہے سب سے ڈیڈ ، زیبی گل کے گھر والوں سے، اس سیٹ اپ سے جہاں ہم ایک مریض کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ، جہاں زندگی اتنی ارزاں ہے، مجھے نفرت ہے اپنے آپ سے ڈیڈ کہ میں اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکی.
وہ ہچکیاں لیتے ہوے کہتی رہی
"مجھے یہاں نہیں رہنا ، مجھے آ کر لے جایں ڈیڈ "
کیا انہوں نے ٹھیک سنا تھا؟ زینیا واپس گھرآنا چاہتی ہے ؟ انہیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ ان الفاظ پر خوش ہوں یا اس کی حالت
پر افسردہ ہوں
" ہنی میں آ رہا ہوں ، بس تھوڑا سا انتظار کرو ، کراچی سے آدھے گھنٹے میں فلائی کر جاؤں گا ، چند گھنٹوں بعد ہم ساتھ ہوں گے ، میری لالہ سے بات کرواؤ"
جانے کیا ہدایت دین انہوں نے لالہ کو ، اسے کچھ ہوش نہیں تھا ، وہ بس اس جگہ سے کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی
لالہ اس کی حالت دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تھے ، انہیں خدشہ تھا کہ کہیں زینیا کو کچھ ہو نہ .جا ے اگر وہ خود احسن شاہ کو کال نہ کرتی تو انہوں نے ہر حال میں ان سے رابطہ کرنا ہی تھا
کبھی یہی باپ تھا جس سے شدید اختلاف اور ناراضگی کی حالت میں اس نے گھر کو خیر باد کیہ دیا تھا اور آج جب ہر راستہ بند ہوتا دکھائی دیا تو اس نے اسی باپ کو پکارا تھا ، خون کے رشتے اٹوٹ ہوتے ہیں ،درمیان میں آنے والی سب ناراضگیاں دھری رہ جاتی ہیں اور وہ اپنا آپ بڑی خاموشی سے منوا لیا کرتے ہیں
سبز گھاس پر بیٹھے گھٹنوں کے گرد ہاتھ لپیٹے کھلے بالوں میں سر جھکاے ، وہ اپنے باپ کی منتظر تھی
زیبی گل کی موت نے زینیا شاہ کو بہت اندر تک ہلا دیا تھا ، شاید زندگی کوئی نیا موڑ کاٹ رہی تھی
===============================================================
Comments
Post a Comment