مٹھی بھر لمحے
وقت کچھ یوں دوڑ رہا ہے کہ آہٹ بھی نہیں ہونے پاتی
کچھ لمحے جو گرفت میں لینا چاہیں بھی تو
ہاتھوں کی انگلیوں کی پوروں سے چھن کر
پھسلتے چلے جاتے ہیں
بند مٹھی کھولیں تو
چند بے نام ذرے
چند کم مائیگی کا احساس دلانے والے
چپ چاپ لمحے
ہتھیلی کی فصیلوں پر
سانس لیتے ، جیتے جاگتے
جھلملاتے ، دکھائی دیتے ہیں
اور ان چند سانس لیتے
بے نام لمحوں کو
کچھ دیر اور سنبھال رکھنے کو
ہم مٹھی پھر سے بند کر لیتے ہیں
نازش امین
Comments
Post a Comment