Waverley Edinburgh

زرد اداسی کے موسم میں 
دھیمی دھیمی  لو میں جلتی 
ایڈنبرا  کی ایک رو پہلی شام 

ویورلے  کے کنارے 
قدیم  سیڑھیوں والے 
نارنجی عنابی  پتوں 
سے ڈھکے  ہوے 
اس یادگاری چوک میں بیٹھے 
میں ان بنچوں  میں سے 
کسی ایک بنچ پر بیٹھی 
وہ یادیں پڑھتی جاتی تھی 
جو کسی ہمیشہ کے لیے 
بچھڑ  جانے والے کی یاد میں 
وہاں نسب کی گئی تھیں 

میں نے  وہیں پر بیٹھے بیٹھے 
ہر اپنے کو یاد کیا 
کبھی جو میرے ساتھ تھے  اور 
اب آنکھوں سے بھی اوجھل ہیں 
دل کی دنیا میں ایک ایک کر کے 
کتنے  دیپ جل اٹھے تھے 
آنکھوں کی دہلیز  پر 
یاد کا اک اک ستارہ 
سانس تھامے ٹھہر گیا تھا 

چپکے سے خاموشی سے 
تمہارے نام کا ایک دیا 
اس بنچ کے اک کونے میں 
چھوڑ آئ ہوں 

شاید  کبھی ایسا بھی ہو 
ویویرلے  کے پاس سے تم  
کبھی جو گزرو 
سستانے کو اس بنچ پر بیٹھو 
اور بچھرے  لوگوں کی فہرست ٹٹولو 
میں شاید تب نہ رہوں پر 
وہ دیا رہ  جا ے گا 
زرد  اداسی کے موسم میں 
یاد کا در کھل  جاے گا 

گا

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)