گماں کے پار
نیلے گگن پر دوڑنے والے
سرمئی ، اودے بادل تھے
سرخ بنفشی اور سترنگی
قوس قزح کی چلمن بھی
ساون کی چھتری کے نیچے
ہوا ابھی تک گیلی تھی
مدھم مدھم سروں میں کوئی
گیت ابھی گنگناتی تھی
پت جھڑ میں کھلنے والے
زرد گلابی پھول بھی تھے
تیز سنہری دھوپ کے ساے
مانند سولہ سنگھار ہی تھے
کچے ہونگے ڈھل جاینگے
یہ تو گویا گمان نہ تھا
ہجر کی برستی بوندوں سے
گھل جایں گے ،. دھیان نہ تھا
ساون کی چھتری کے نیچے
قوس قزح بکھر رہی ہے
پت جھڑ کے موسم کی مانند
ایک اک آس ٹوٹ رہی ہے
ہوا بھی چپ چاپ کھڑی ہے
بادل بھی ناراض سا ہے
پھر بھی گماں کے پار کہیں
تیرے انے کا دھیان سا ہے
نازش امین
Comments
Post a Comment