پچھلی شب کا چاند
پچھلی شب کا چاند گیء رتوں کی روشنی سے یوں بوجھل تھا جیسے یاد کی مہکی پروایء چھو کر اسے گزرتی ہو جیسے بادل بھیگے لمحوں کے رخ سے حجاب اٹھاتے ہوں جیسے لہریں آنسو سمندر کی اسکے چرنوں میں سر جھکاتی ہوں جیسے کسی مندر میں وہ اکیلا دیوتا اور ہر منظر اس کی داسی ہو اور آس کے افقی ساحل پر قوس قزح کچھ یادوں کی اپنے رنگ پھیلاتی ہو اور پھر کسی روز وہ تنہا دیوتا داسی کے چڑھاےء پھول سمیٹنے خود نیچے اتر کر آیا ہو کل رات میں نے دیکھا تھا پچھلی شب کا چاند گیء رتوں کی روشنی سے کچھ بوجھل بوجھل تھا