Posts

Showing posts from January, 2021

ہجرتیں

 زرد پتے شام پھر بکھرا گئی سانس لیتی ہجرتیں ہیں دور تک

آیت وصل پڑھی

 کوئی تعویذ نہیں چلتا دمِ ہجر کہ یوں جادو ٹونے کا اتارا نہیں ہونے والا پہلی پہلی وہ اذیت ہی مجھے کافی ہے اب مجھے عشق دوبارہ نہیں ہونے والا آیتِ وصل پڑھی اور پلایا پانی اب مرے دل کو خسارا نہیں ہونے والا ‏مجھ سی پاگل کو اشارہ نہیں ہونے والا خاک ہے خاک ستارا نہیں ہونے والا تھوڑا تھوڑا ہی میسر رہے کافی ہے مجھے وہ مرا سارے کا سارا نہیں ہونے والا چند لمحوں کی رفاقت ہے مرے کاسے میں اس محبت پہ گزارا نہیں ہونے والا

کسی کی آنکھ جو پر نم

 کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کو اگر چہ گفتگو مبہم نہیں ہے سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے یہ بستی ہے ستم پر ور دگاں کی یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے کنارا دوسرا دریا کا جیسے وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں کوئی اس زخم کا مرحم نہیں ہے جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا بجز اک بازگشتِ غم نہیں ہے امجد اسلام امجد