دعا

 دعا کو ہاتھ اٹھائے ہیں  بہت دنوں کے بعد 

کمال یہ ہے کہ  اب سوال کوئ نہیں 

اک ایسی چپ نے اسیر کر دیا ہے کہ اب 

جھولی میں گر ے چند آنسوؤں کے سکے

شور کر تو رہے ہیں، جواب کوئ نہیں

فقط ایک ہی مطلوب ، فقط ایک ہی عشق 

زندگی اس ایک طواف کے سوا کچھ تھی بھی نہیں

وہ چند لمحے ہی تو حاصل تھے، جو قسمت سے

مل گئے تھے تو خوشبو کے قافلے تھے رواں

رفاقتوں کے یہ موسم  یوں مختصر ہوں گے 

یہ سوچنے کی فرصت بھی  بھلا کب تھی ہمیں

تمہاری ذات سے لے کر تمہاری روح تلک

مطاف دل کا اتنا سا دائرہ تھا فقط

کہاں شگاف پڑا کہاں دراڑ آئ

یہ جاننے کی بھی مہلت کہاں مل پائ

اور اب خالی جھولی میں اشکوں کے یہ سکے 

نوحہ کناں ہیں اس شام غریباں میں یوں

کہ بس صرف اک آہٹ ، صرف اک آواز 

کہ جس کے انتظار کے سوا 

زندگی کا ماخذ کچھ بھی نہیں


نازش امین

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden