دھند 10

 اس نے دھند میں لپٹا  ہیولہ  دیکھا تھا جو ہولے ہولے کپکپا رہا تھا 

اسے حیرت نہیں  ہوئی ، رات جتنی گہری ہوتی  جا رہی تھی اتنی ہی سرد بھی ہوتی جاتی تھی 

 کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں  اور خاموشی سے دیکھتے ہیں ، دور سے، ٹھہر ٹھہر  کر، کبھی بظاھر اور کبھی چپکے سے  دیکھے   جاتے ہیں  کیوں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا 

کبھی گفتگو کرنا اور فاصلے سمیٹنا آسان  نہیں ہوتا ، کبھی بہت  ہی قربت کے تعلّق  کے باوجود  اجنبیت  کی چادر اوڑھنی پڑھتی ہے 

کبھی اجنبیت کا رشتہ سب سے مضبوط حوالہ بن جاتا ہے 

ایسے میں دیکھنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوتا 

 سو  وہ دیکھ رہا تھا  اور فاصلوں کو سمیٹنے کی کوئی چھوٹی سی کوشش کرناچاہ  رہا تھا ، اس لیے وہ کافی خریدنے کے لیے ہوٹل کے اندروں میں چلا آیا تھا

========================================

موسیقی اور شاعری جب دونوں ایک خوبصورت ملاپ کی صورت میں سامنے ہوں تو کون ذی  ہوش ہوگا جو مدہوش نہ ہو ، وہ تو یوں بھی عام  لوگوں سے کہیں زیادہ حساس تھی 
کوئی نہ معلوم سی اداسی اس کے ارد گرد پھیلنے لگی 
کوئی  بھولا بسرا خیال جیسے لوٹ آیا تھا 
کسی یاد  کے دائرے نے جیسے اسے ہجوم میں بھی تنہا کر دیا تھا 
کتنا عجیب ہوتا ہے جب بہت سے لوگوں کے درمیان ہوتے ہوے بھی  آپ  کسی تنہا دنیا کا حصّہ بن جاتے ہیں

اسے کوئی بے نام سی بے چینی نے گھیر  لیا 

وہ ہولے ہولے کپکپپا نے گی ، پتا نہیں سردی کی لہر تھی یا جذبوں کی شدّت 

وہ تنہا ہونا چاہتی تھی اس لیے اس نے اپنے کمرے میں جانے کا فیصلہ کر لیا 

رات بہت بیت چکی تھی مگر لوگوں کی دلچسپی ابھی برقرار تھی، کسی کا سونے کا ارادہ نہیں لگ رہا تھا ،
" پتا نہیں ڈیڈ کہاں ہوں گے" 

اس کی متلاشی نظریں  احسن شاہ بخاری کو ڈھونڈ رہی تھیں 

کافی دور  چند لوگوں کے درمیان بہت آرام دہ انداز میں بیٹھے اسے وہ نظر آ گئے 

چند لمحوں میں ان سے رخصت لے کر وہ ہوٹل کی  عمارت کی جانب بڑھنے لگی 

ٹھنڈ بہت تھی ، پتا نہیں آج ہی کیوں اسے ساری پہننے کا شوق ہوا تھا 

شال کو اچھی طرح کندھیں کے گرد لپیٹتے ہوے اسے صرف یہی خیال آیا 

پتا نہیں کیا ہوا تھا ، ایک لمحے کو ٹھٹھک کر وہ رکی اورپلٹ  کر وہاں دیکھنے لگی جہاں ابھی محفل جمی ہوئی تھی 

اسے لگا کوئی کمی تھی 

شاید وہاں جہاں سب لوگ اکٹھے تھے یا شاید اس کے اپنے اندر 

کوئی کمی تو تھی 

وہ سر جھٹک کر  مڑی  اور چلنے لگی 

آپ جا رہی ہیں ، اتنی جلدی "  وہ عمر حیات ہی تھا "
اس نے حیرت سے دیکھا ، کبھی کبھی  لوگ ہمیں وہاں مل جاتے ہیں جہاں سے ملنے کی کوئی امید نہیں  ہوتی 

"جی رات کافی ہو چکی اور میں کچھ تھک بھی گئی ہوں "

شاید آپ کو میوزک پسند نہیں آیا " وہ کہتے ہوے رکا اور ہاتھ میں پکڑی کافی اس کی طرف بڑ  ھا  ئی "

میرے لیے ؟" زینیا نے حیرت سے پوچھا  "

کیوں یہ بھی نہیں پسند؟ " وہ شرارت سے  مسکرایا "

"کچھ چیزیں ہیں جو میں ریسسٹ نہیں کر سکتی ، ان میں سے ایک موسیقی ہے اور دوسری کافی " اس نے شکریہ کہتے ہوے کافی تھامی 

تو پھر کیا خیال ہے وہاں چلیں؟" عمر نے اوپن ایئر کی جانب دیکھتے ہوے  کہا "

 " نہیں ، یہیں ٹھیک ہے " شاید اسے کافی کی ضرورت تھی ، اس کی سرد ہوتی رگوں میں کافی گرم مایا بن کردوڑنے لگی  

" آپ نے کانفرنس کا انتظام خوب کیا ڈاکٹر عمر" 

"یہ ایک ٹیم ورک ہے زینیا، میں سارا کریڈٹ اکیلے نہیں لے سکتا "

زینیا کو یہ سچ بولتا  آدمی اس وقت بے اختیار اچھا لگا 

وہ بلا وجہ مسکرائی 

" ڈیڈ تو بہت  این جوائے  کر رہے ہیں "

"انکل شاہ میرے آئیڈیل ہیں زینیا ، آپ بہت خوش قسمت بیٹی ہیں "

کہیں تلخی کی مقدار زیادہ ہو گئی تھی اس ایک گھونٹ  میں 

زینیا کو وہ کڑوا گھونٹ پینا مشکل ہو گیا 

وہ کچھ نہیں بولی ، خاموشی سے وہاں دیکھتی رہی جہاں اس کے اندازے کے مطابق اس کے والد کو موجود ہونا تھا 

"تھنک یو فور کافی ڈاکٹر عمر، میں اپنے کمرے میں جانا چاہوں گی اب "

وہ خامشی سے اس کے ساتھ چلنے لگا 

" میرا خیال ہے آپ اپنے دیگر مہمانوں کا خیال رکھیں ، میں اکیلی بھی جا سکتی ہوں " کچھ ناگواری سے کہتی وہ تیزی سے ہوٹل کی عمارت کی جانب بڑھ گئی 

حیرت میں ڈوبا عمر حیات اس پل پل رنگ بدلتی لڑکی کو جاتا ہوا دیکھتا رہا 

=======================================



Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)