دھند 11

اس نے اتنے  تواتر سے گھڑی شاید ہی کبھی دیکھی ہو . انتظار بھی عجیب ہے ،مختصر   ہو تو پر لطف لگتا ہے ، طویل تر ہو تو لذت کی جگہ اذیت لے لیتی ہے 

 ناشتے کی میز پر اس کا خیال تھا وہ مل جاتے  گی ، کیوں کہ گئی رات اپنے کمرے میں واپس جانے والوں میں وہ  سر فہرست تھی 

 کانفرنس کا دوسرا دن شروع بھی ہو چکا تھا اور وہ ہنوز غایب تھی. عمر حیات کو الجھن ہونے لگی ، وہ کیوں اس کے بارے میں سوچ رہا تھا ؟

کانفرنس ہال کے اندر باہر وہ کئی چکر کاٹ چکا تھا ، شاید اسے رات محسوس ہونے والی زینیا کے  لہجے کی تلخی نے اچھا خاصا پریشان  کیا تھا، کبھی کبھی اپنے آپ کو بھی جواز پیش کرنا پڑتے ہیں اور وہی لمحے سب سے مشکل ہوتے ہیں ، سب لوگوں سے چھپایا بھی جا سکتا ہے اور جھوٹ  بھی بولا جا سکتا ہے ، اپنے آپ سے نہیں  ، سو وہ خود کواپنی ہی بے   چینی کے جواز دے رہا تھا 

کوئی دس بجے کے قریب انکل شاہ سے ملا قات  ہوئی ، وہ واپس جانے کے لیےتیار  تھے

"میں چلتا ہوں عمر،  بہت خوبصورت شام کے لیے شکریہ " 

وہ مسکرا دیا 

"دعوت قبول کرنے کا شکریہ انکل "  
"ہنی تو جا چکی ، اس کا فون آیا تھا وہ  صبح سویرے ہی روانہ ہو گئی نتھیا گلی کے لیے "

"اوہ اچھا،  مگر ابھی کافی کچھ باقی تھا کانفرنس میں " اس نے اپنے لہجے کی مایوسی چھپاتے ہوے کہا" 

" آ گیا ہو گا کسی ضرورت مند مریض کا فون ، وہ ایسی ہی ہے . کل بہت عرصے بعد میں نے  اسے یوں خوش دیکھا تھا . لگا جیسے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ رہی ہے وہ ، مگر  آج صبح پھر سے ویسی ہی تھی ، وہ چلی بھی گئی مجھ سے ملے بغیر " 

کہیں کوئی کڑی ملنے لگی تھی ، عمر حیات کو اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھائی دینے لگا تھا 

دکھ دونوں جانب تھا 

وہ باپ بیٹی تو رخصت ہو گئے تھے اور عمر سوچ کے جنگلوں میں بھٹکتا پھرتا تھا 

پتا نہیں وہ کیا بات تھی جو زینیا شاہ کو اس قدر بری محسوس ہوئی ، جو اس نے کانفرنس کے لیے بھی ٹھہرنا پسند نہیں کیا 

وہ اپنے آپ کو مجرم محسوس کرتا رہا 

====================================================


سبز ڈھلوان والے اس پر تعیش کاٹیج کے  باہر بنی سفید لکڑی کی باڑ اور اس کے ساتھ بنے دروازے کو کھولتے ہوے وہ باہر اس رستے پر چلنے لگی جو اس کی روز مرہ زندگی کا اب ایک حصّہ بن چکا تھا بلکل ویسے جیسے ال صبح کی یہ چہل قدمی جس کے بغیر اس کے دن کی ابتدا نہیں ہوتی تھی 

بالوں کی اونچی پونی بناے ، جینز کے ساتھ سرخ رنگ کا سویٹر اور نیلے رنگ کی شال اوڑھے وہ خود اس خاموش منظر  میں رنگ بھرنے کا سبب بن رہی تھی 

دھند آج بھی گہری تھی 

اسے دھند اچھی لگتی تھی ، کیوں کہ وہ ڈھانپ لیتی تھی ، اسے لگتا تھا وہ محفوظ ہو گئی ہے ، دنیا کی جن نظروں سے  چھپنے کے لیے اس نے یہ جو جاتے پناہ ڈھونڈی تھی ، یہ گہری دھند یہاں اس کی گہری سہیلی بن چکی تھی 


ہوا آج معمول سے زیادہ خنک تھی ، اس کے بال اڑ رہے تھے ، ڈھلوان پر بنی اس پگڈنڈی پر کچھ فاصلوں  سے اور بھی کاٹیج تھے مگر اس وقت خاموشی تھی ، کوئی اور بے چین روح نہیں تھی زینیا شاہ کے علاوہ ، ویسے بھی یہ گھر کبھی کبھی آباد ہوا کرتے تھے ، یہ نتھیا گلی کا مہنگا ترین علاقہ تھا ، یہاں شہروں میں رہنے والے متمول گھرانوں کے لوگ زیادہ تر چھٹیاں  بسر کرنے کے لیے آیا کرتے تھے،عام  دنوں میں وہ گھربند  ہی رہتے تھے 

اس نے نتھیا گلی میں رہنے کی ضد  تو پوری کر لی تھی مگر اسے اپنے والد صاحب کی یہ شرط مانناپڑی  تھی کہ وہ ان کے کاٹیج میں قیام کرے گی ، ورنہ اس نے تو ہسپتال کی جانب سے ملنے والے  کواٹر میں رہنے کا ارادہ کیا ہوا تھا 

اسے بھوربن سے لوٹے کئی دن گزر گئے تھے مگر وہاں گزرا ایک ایک لمحہ کسی مووی ریل کی طرح اس کی آنکھوں     میں  گھومتا رہتا 
بے چینی سی بے چینی تھی؟ 

وہ چلتے چلتے پھر کسی خیال کے زیر اثر تھی 

لوگ رخصت ہو جاتے ہیں خیال نہیں ، وہ بھوربن سے لوٹی تو بدل گئی تھی 
کوئی خیال جیسے  اس کے ہمراہ چلا آیا تھا 

کوئی امر بیل کی طرح اس کی ذات سے لپٹا اسے تنہا نہیں ہونے دیتا تھا 

کبھی کبھی وہ لوگ بھی تسخیر کر لیے جاتے ہیں جنہیں کبھی کوئی متاثر نہ کر پایا ہو 

مگر وہ خود اعترافی سے ڈرتی تھی 

اسے اپنے اندر رو نما ہونے والی تبدیلی  پر حیرت تھی 

کہتے ہیں اگر آپ محبّت ہو جانے کے بعد بھی ویسے ہی رہیں جیسے محبّت کے تجربے سے گزر جانےسے  قبل تھے تو شاید آپ نے محبّت کی ہی نہیں 

بہت سے روشن ہوتے قربتوں کے منظر 
دھندلا رہے ہیں 
یہ کیسی  دھند ہے کہ جس میں لپٹا 
بھولا بسرا ایک لمحہ 
ٹھٹھر کر جیسے 
ٹھہر گیا ہے 

===================================




Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)