دھند 33
کچھ لوگوں کے آنسو ہم سہ نہیں سکتے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ ہمیں بھگو رہے ہوں ڈاکٹر عمر حیات خان نے بیشتر مریضوں کے گھر والوں کو ہسپتال کی دیواروں کے اندر روتے ہوے دیکھا تھا مگر ان کے آنسو ان پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے، مگر زینیا شاہ کو داور کے ساتھ لگ کر یوں روتا ہوا دیکھنا اس کے بس سے باہر تھا وہ کچھ فاصلے پر موجود ایک اور مریض کا موا ینا کرنے میں مصروف ہو گیا ، مگر توجہ کا باٹنا اتنا آسان ہوتا تو پھر مشکل کیا تھی پتہ نہیں کتنے ہی لمحے یوں ہی بیت گئے ، وہ اسٹاف پیٹر کے ساتھ ان عمر رسیدہ مریض کی دوا میں ردو بدل کی بات طے کر رہا تھا جب اس نے زینیا کو کہتے سنا "کیا میں بالٹی مور میں ہوں؟" اس کا ذہن ابھی اپنے ارد گرد سے مکمل طور پر شناسا نہیں ہو پایا تھا ، دوسرے داور اور عمر کی بہ یک وقت مجودگی بھی اس کے لیے اچھنبے کی بات تھی عمر نے اس کی آواز سن لی تھی اور اسے خوشی تھی کہ اس کا ذہن اب آہستہ آہستہ ہوش کی سرحد کے قریب ہوتا جا رہا تھا وہ دونوں کو باتیں کرتا ہوا چھوڑ کر احسن شاہ بخاری کو بلانے چل دیا ، ============================