زنِ حسین تھی
زنِ حسین تھی اور پھول چٗن کے لاتی تھی
میں شعر کہتا تھا وہ داستاں سناتی تھی
منافقوں کو میرا نام زہر لگتا تھا
وہ جان بوجھ کے غصہ انھیں دلاتی
میں تیغ لے کے نکلتا تو لوگ دیکھتے تھے
وہ اسم پڑہتی تھی اور بھیڑ چھٹتی جاتی تھی
عرب لہو تھا رگوں میں، بدن سنہرا تھا
وہ مسکراتی نہیں تھی، دیئے جلاتی تھی
اٗسے کسی سے محبت تھی اور وہ میں نہیں تھا
یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رولاتی تھی
یہ پھول دیکھ رہے ہو، یہ اسکا لہجہ تھا
یہ جھیل دیکھ رہے ہو، یہاں وہ آتی تھی
میں کچھ بتا نہیں سکتا وہ میری کیا تھی علیؔ
کہ اسکو دیکھ کے بس اپنی یاد آتی تھی
علی زریون
Comments
Post a Comment