طلب
یہ کیا کہ میری طلب ہی ہمیشہ تمہیں صدا دے
کبھی تو خود بھی سپردگی کی تھکن میں آؤ
کہیں پڑھا
طلب ہی محبت ہے
وہی اولین طلب
کہ جو آگ بجھ رہی ہو اسکی چنگاری کو پھر سے بھڑکا دے
کہ جس کی آس کے بغیر نہ صبح سے شام ہو نہ شام سے رات
وہ جس کی آواز سننے کو ایک ایک پل گنا جائے
جس کی ایک جھلک دیکھنے کو انتظار کی کٹھن گھڑیاں گزاری جائیں
ہاں وہی طلب جو بجھ چکی ہے
میں اس طلب کو اپنے لیے تمہاری آنکھوں میں دیکھنے
کی منتظر ہوں
ہمیشہ رہوں گی
Comments
Post a Comment