دھند 35

ٹھنڈ  میں ٹھٹھرتی ایک اور شام تھی جن اپنی بلکونی میں لگے جھولے میں جھولا جھولتے ٹھنڈ  کو اپنی جلد پر محسوس کرتے ہوے  وہ آج کچھ وقت اپنے ساتھ صرف کر رہا تھا 
کبھی کبھی اپنے اندر کی سرگوشیوں کو سننے کے لیے چند لمحوں کے لیے رکنا پڑتا ہے 
کیوں ک اس تیزی سے بھاگتی  تھکا دینے والی دوڑ کی حامل زندگی میں  اگر وقت نہی نکل پاتا  تو صرف اپنی ذات کے لیے.
  اسے کچھ اہم فیصلے کرنے تھے، اور ان فیصلوں سے قبل اسے ادراک کے ان لمحوں کے رو با رو  ہونا تھا جن لمحوں کو گرفت میں لانے کے لیے اسے ایک ٹھہراؤ کی ضرورت تھی 
ہسپتال، او پی  ڈی ، شیرل ، والدین، احباب، ، اور آن لائن اکٹھے ہونے والی ڈھیر  سری ضروری ای میل ، ان سب سے چپ چھپا کر، اپنے ساتھ وقت  گزارنے  کی لیے وہ اپنے فلیٹ کی بالکونی میں لگے جھولے پر آ بیٹھا تھا . فون کہیں دور پیرا تھا 
آج اس نے ہر توجہ کھینچ لینے والی شے سے پیچھا چھڑایا ہوا تھا. 
اور یہی شاید ایک غلط فہمی تھی 
ایک شدید توجہ کھینچ لینے والی ہستی یہاں تلک اس کے ساتھ چلی آئ تھی 
یوں بھی اسے  جو فیصلے کر لین
ے تھے ان کا ربط کہیں نہ کہیں جا کر زینیا شاہ سے ملتا تھا. 
آج ہسپتال میں اس کا آخری دن تھا. آج کسی  پہر  اسے ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا کیا ہوگا. وہ خود کسی اہم میٹنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے وارد  میں موجود نہ تھا. 
پچھلی شام جب وہ راؤنڈ  ک لیے  ڈاکٹر حیدر  کے ہمراہ اس کے کمرے تک پنہچا تو وہاں ایک میلہ لگا تگا. زینیا کے والدین، داور سمیت موجود  تھے خود عمر حیات خان کے والدین بھی وہیں برا جمان تھے بلکہ عمر کی امی تو زینیا کے ساتھ لگ کر بیٹھی اسے پھل کھلا رہی تھیں. داور  حسب معمول شور مچا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ان لمحوں کو کیمرے  میں قید کرتا جاتا تھا 
سسٹر اگنس وہیں زینیا کے ہاتھ سے کنولا باہر نکل رہی تھیں اور زینیا نے درد کی وجہ سے برا سا منہ بنایا ہوا تھا.
وہ خاموشی سے کھڑا اتنا زندہ جاگتا منظر اپنے اندر سمو رہا تھا 
زینیا بہتر تھی اب گو کافی کمزور  لگ رہی تھی 

اس نے صرف ایک بار نظر اٹھا کر عمر کو دیکھا تھا اور اس کے بعد خوب نظرانداز کرنے کا سلسلہ جاری تھی.
وہ سمجھ گیا تگا ، وہ عمر سے ناراض تھی، کیوں؟ یہ عمر کو معلوم کرنا تھا 
. ڈاکٹر حیدر کو دیکھ کر زینیا کا موڈ سخت خراب ہوا تھامگر وہ خاموش رہی تھی.
حیدر خود ڈرتا تھا ک مادام  غصّے میں کچھ اٹھا کر اسے دے نہ ماریں. وہ  کچھ کچھ ڈاکٹر عمر کے اونچے قد کے سائے  میں چھپتا پھرتا تھا 
عمر کی امی نے زینیا کی صحت یبھی کی خوشی میں دعوت کا اہتمام کرنے کا اعلان کیا. 
شاہ صاحب انکار کرتے رہے مگر انہوں نی ایک نہ سنی. 
بقول ان کے زینیا  ان کی اپنی بیٹی تھی.  اور وہ اس کی گھر واپسی اور صحت یابی دونوں کو سلیبرٹ کرنا چاہتی تھیں. . حیات الله خان بھی ان کے اس فیصلے میں ان کے ساتھ تھے اس لیے شاہ صاحب کے پاس ماننے کے علاوہ کوئی چارہ  نہیں تھا. 
داور  نے سٹاف اگنس کو کیمرے پکڑایا اور سب کو زینیا کے بستر کے ارد گرد  جمع  ہونے کا اشارہ دیا. وہ ایک خوبصورت گروپ فوٹو چاہتا تھا. 
عمر دور کھڑے دیکھ رہا تھا  دور داور  نے بازو سے پکڑ کر عین زینیا کے سرہانے لا کھڑا کیا اور خود بھی اس کے برابر کھڑا ہو گیا. 
سب لوگ زینیا کو گھیرے میں لئے بیٹھے تھے اور مسکرا رہے تھے 
بلا  شبہ  یہ زینیا کی زندگی کا اک خوبصورت لمحہ تھا 


---------------------------------------------------




وہ اپنا وہ جھولا جھولتے ہوے وہی لمحہ یاد کر رہا تھا 
اسے اپنی امی کی خوشی کی وجہ کا بھی ادرک تھا 
آخر یہ ان کی اور بابا کی بہت دیرینہ خواہش تھی ک زینیا ان کی بہو بنے عمر کی اس وقت کی ہٹ دھرمی جب وہ ڈاکٹر بننے امریکا جا رہا تھا ، اوربہت کم عمر تھا،  اور اس مرحلے پر کسی رشتے کی زنجیر میں قید ہونا نہیں چاہتا تھا.
جب  اس کی پوسٹ گراجواشن شروع ہوئی ٹیب زینیا  پاکستان میں ڈاکٹر بننے کے مرحلوں میں تھی 
وہ اس سے شاید  کبھی بچپن میں ملا تھا 
مگر اس کا نام جیسے  گھر کے کسی فرد کی طرح لیا جاتا تھا.
جب اس کی منگنی کی خبر ملی تب بھی اسے کچھ خاص فرق محسوس نہ ہو سکا. ہاں اس کے والدین کافی دکھی ہوے تھے 
وہ سمجھ سکتا تھا کہ اس کی امی کیوں اس قدر خوش تھیں 
شاید وہ پھر سے خواب بن رہی تھیں.
وہ خواب جو عمر نہی دیکھنا چاہتا تھا 
وہ اب کوئی فیصلہ کرنا چاہتا تھا 
یہ محض اتفاق تھا ک چند مہینوں قبل اگر زینیا اسے یوں نہ ملی ہوتی تو وہ شیرل کو لے کر اپنی زندگی کا کوئی برا فیصلہ کر چکا ہوتا 
اسی لیے اس نی شیرل کو پاکستان انے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ٹھہرنے کی دعوت دی تھی 
گو ابھی سب کچھ ان کہا تھا 
ابھی دونوں جانب خاموشی تھی 
چند دنوں  میں شیرل کی واپسی تھی. عمر اور وہ دونوں ایک ہی فلائٹ سے بالٹی مور واپس جا رہے تھے. 
مگر جانے کیوں 
عمر  گم صم  تھا 
اسے الجھاؤ پسند نہیں تھے.
اسے  خود سے اور سب سے ناراض زینیا بہت عزیز ہو گئی تھی 
وہ جانے سے پہلے ایک بار اسے سے ملنا چاہتا تھا 
اس کے سامنے اقرار کرنا چاہتا تھا ک اس کی موجودگی نے اس کے سارے پلانز الٹ پلٹ کر دیا ہیں اور اب وہی اس کی زندگی کی ترتے  درست کر سکتی تھی 
عمر جانتا تھا یہ سب کتنا مشکل تھا، زینیا کوئی عام لڑکی نہیں تھی

اسے زندگی میں سخت خدشات لاحق تھے 
وہ شاید اس بات پر عمر کی پٹائی بھی کر سکتی تھی مگر عمر حیات خان نے ارادہ بندہ لیتا تھا 
وہ دل میں بسی اس بے چینی کا خاتمہ چاہتا تھا  . شاید وہ یہ نہی جانتا تھا کے یہ بے چینی ایک بار لگ جے تو جینا آسان نہی ہوتا یہ سلگن
تو ہر پل کی ہوتی ہے اس سے مفر ممکن نہی ہوتا.


























Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden