دھند 18

جب ذہن مرتکز نہ   ہو تو قدم بھی ٹھیک نہیں پڑتے 
آج اس سے  واک بھی نہیں کی جا رہی تھی . پھر بھی چلتے چلتے وہ کافی آگے نکل آئی تھی 
یہ وہ راستہ تھا جو یہاں کا مشہوہائی کنگ  ٹریک تھا ، سر سبز  دو رویا طویل قامت درختوں سے  گھرا ، ایک طرف اونچا ہوتا گھانا جنگل دوسسری جانب گہری کھائی میں اگا  سبزہ اور سایہ  کرتے درخت ، کھائی میں  گرنے سے بچانے کے لیے ایک جنگلا تھا جو دور تک چلا جاتا تھا 
وہ تقریباً  روز ہی یہاں آیا کرتی تھی ، کبھی کبھی دھند اتنی زیادہ ہوتی کہ چند قدموں سے آگے کچھ دکھائی نہ دیتا مگر وہ پھر بھی چکلتی جاتی ، اسے اس  دھند سے باہر  آ کر کچھ نیا مل جانا ہمیشہ خوشی دیتا تھا
یوں جیسے کوئی کھو کر پھر مل گیا ہو
اکثر صبح وہ   اکیلی ہی ہوتی پر کبھی کبھی کوئی اس کی طرح کا صبح خیز واک کرتے ہوے پاس سے گزرتا تو اسے دوسراہٹ کا احساس ہوتا
ویسے بھی وہ روش اس قدر خوب صورت تھی کہ کسی حسین ساتھ کی خواہش خود بہ  خود جاگ جاتی تھی

وہ سر جھکاے چلی جا رہی تھی ، دھند آج بھی تھی مگر کچھ کم
وہ چند فٹ کے فاصلے تک تو دیکھ ہی سکتی تھی

مگر  اسے آج کل اکثر واہمے بھی ہونے لگے تھے ، کسی ان دیکھے وجود کی موجودگی کے واہمے

جیسے ابھی بھی اسے یہی محسوس ہوا تھا کہ چند فٹ کے فاصلے پر کسی درخت کے تنے سے ٹیک لگاے ، اس نے اسے کھڑا دیکھا تھا ، براؤن رنگ کی سویڈ  جیکٹ پہنے



اس نے سر جھٹکا اور پھر سے چلنے لگی . دھند چھٹ   رہی تھی ، منظر واضح ہو رہا تھا ، وہ دانستہ وہاں دیکھنے سے گریز کر رہی تھی جہاں اس کے خیال میں عمر حیات نظر آیا تھا ، وہ درخت اب بہت قریب تھا .
وہ اب چلتے چلتے اس درخت سے آگے نکل آئ  تھی ، پھر جیسے اس نے سکوں کا سانس لیا ، یوں کہ گویا  اس واہمے کے حقیقت ہو جانے سے جیسے وہ خوفزدہ ہو 

"صبح  بخیر "

کس نے ہوا میں سرگوشی کی 

وہ  رک  گئی اور ساتھ ہی ایک لمحے کو اس کی سانس بھی 

مگر اس نے پلٹ  کر نہیں دیکھا ، اسے بچپن کی کہانی یاد تھی، وہ پتھر ہونا نہیں چاہتی تھی 

اس نے قدم آگے کو بڑھاے 

"زینیا" 
وہ سرگوشی اب بہت قریب تھی 
کیا خواب ایسے بھی ہوتے ہیں؟

قدموں کی آہٹ  سن کر بھی وہ رکی نہیں 

کسی نے اس کا بایاں بازو تھام کر اسے روکا 
"زینیا"
کیا کسی نے پہلے یوں  اسے پکارا تھا ؟

وہ رک گئی، وہ جانتی تھی یہ خواب نہیں تھا ، وہ  اپنے آپ سے جھوٹ بول رہی تھی 

اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ، براؤن سویڈ  جیکٹ اس پر جچ رہی تھی 

"اتنی ناراضگی؟" وہ بولا 

"یہ بات نہیں ، مجھے لگا میں خواب دیکھ رہی ہوں " اس نے فورا کہا ، وہ ناراض کب  تھی وہ تو شرمندہ تھی 

"آپ جیسی پریکٹیکل لڑکی خواب بھی دیکھتی ہے؟" 

اس کا بازو اب تک اس کے ہاتھ میں تھا ، زینیا نے دھیمے سے بازو چھڑایا  اور آگے چلنے لگی 

خواب کون نہیں دیکھتا؟، وہ آہستہ سے بولی 

امیں معذرت چاہتا ہوں ، بغیر آپ کو اطلاعا  کے بغیر  اس دن آپ کے گھر چلا آیا ، مگر کچھ ضروری میسج تھے ، اور آپ اتنی ناراض  کہ پھر بات ہی نہیں ہو سکی 

" ای ام ساری، میں نے بھی کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا ، آپ یقیناً  کسس اھم کام سے آے  ہونگے "

وہ دونوں چند لمحے کو چپ رہے ، کبھی کبھی خاموشی کو بھی گفتگو کرنا چاہیے 

زینیا کو لگا اس کی کوئی گہری خواہش پوری ہو رہی ہو ، وہ آج اس خوبصورت روش پر ، اس دھند آلود صبح  میں اکیلی نہیں تھی ، چند لمحوں کے لیے ہی سہی، ساتھ اگر پسندیدہ ہو تو یادگار بن جاتا ہے 

 "آپ کانفرنس چھوڑ کر یوں چلی گئی تھیں ، وہاں جیوری نے آپ کے پیپر کو بیسٹ پیپر چن لیا تھا ، آپ کا سرٹیفکیٹ اور مومنٹو میرے پاس امانت تھا ، وہی  پہنچانے آیا تھا |

 زینیا نے حیرت سے اسے دیکھا پھر مسکرا دی 

مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، میں نے وہ ریسرچ جس مقصد کے  لیے کی تھی ، یہ سرٹیفکیٹ مجھے اس مقصد میں مدد نہیں کرے گا 

عمر حیات کو حیرت ہوئی ، وہ کتنی مختلف لڑکی تھی 

" اور اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ صرف ایک پیغام تھا، دوسرا تو آپ نے ابھی سنا نہیں 
اب حیران ہونے کی باری  اس کی تھی 

   WHO      وہاں کانفرنس میں 
کے ڈیلیگٹس بھی تھے اور وہ آپ کی ریسرچ سے بہت متاثر بھی ہوے ، وہ آپ سے ملنا چاہتے تھے مگر آپ جا چکی تھیں 
میں نے  فون پر رابطہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ، وہ آپ کے ساتھ مل کر اس علاقے میں کوئی پروجیکٹ شروع کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں 
میں اس سلسلے میں آپ کی ان سے میٹنگ طے  کروانا چہ رہا تھا 

زینیا تو جیسے خوشی کے مارے ساکت ہو گئی تھی ، اسے چند لمحوں کے لیے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا 

سچ عمر؟، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا میں اس علاقے کی عورتوں اور بچن کے لیے کچھ کر سکتی ہوں؟

اس کے سوالوں میں بچوں کی سی معصومیت تھی 

عمر حیات کھل کر ہنسا تھا 
"کیوں نہیں!" دنیا میں کچھ بھی نہ ممکن نہیں ہے جب ارادے نیک ہوں  تو راہ خود آسان ہو جاتی ہے 

اوہ تھنک یو عمر ، آپ نے میرا دن سنوار دیا " اس نے اپنی کونونٹ  زدہ انگریزی میں کہا 

" میں تو اس دن بھی دن سنوارنے ہی آیا تھا جب آپ نے عزت افزائی  کر کے چلتا کر دیا تھا " 

وہ خوب شرمندہ ہوئی 

" ائی  یم  ساری " وہ صرف اتنا ہی کہ سکی 
عمر حیات کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ زینیا شاہ وہ نہیں تھی جو نظر آتی تھی 
اوپر  سے کچھ کھردرے اور خشک نظر انے والے لوگ اندر سے کبھی موم کی طرح نازک اور  نرم بھی ہی سکتے ہیں 

اسے خوشی تھی کہ اس نے اس دیوار میں پہلا سوراخ کر دیا تھا 

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠












Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden