دھند ١٩
وہ جا چکا تھا
اسے جانا ہی تھا . یہ تو وہ بھی جانتی تھی مگر پھر کیوں بے چینی سے ٹیریس پر اترنے والے بادلوں کی طرح ادھر سے ادھر، بے سمت چلتی جا رہی تھی
شام ڈھل رہی تھی مگر وہ تو جیسے وقت کے دائرے سے کہیں باہر نکل چکی تھی
اسے اب دن رات کا فرق بھی محسوس نہیں ہوتا تھا ، کچھ اس لیے بھی کہ وہ ایمر جنسی میں کسی بھی ہسپتال بلائی جا سکتی تھی اور کچھ یوں بھی کہ جب آپ کسی کی یاد میں ڈوبے ہوے ہوں تو وقت بھی اپنے ہونے کا احساس ثابت نہیں کر پاتا
زینیا شاہ نے زندگی میں سب سے بڑھ کر کچھ سیکھا تھا تو وہ اپنے اندر موجود احساسات کو قبول نہ کرنے کا فن تھا
denial
اور اس وقت بھی وہ اپنے اندر مچلتے، شور مچاتے، آنسو بہانے کو بیتاب ہوتے جذبوں کو رد کر رہی تھی
اسے عمر حیات کا واپس چلے جانا کسی دکھ میں مبتلا کر گیا تھا
مگر وہ خود کو یہ ہی باور کروا رہی تھی کہ اس کی بے چینی کی وجہ کچھ اور تھی
مثلا زیبی گل کے شوہر کا اسے زبردستی ہسپتال سے گھر لے جانا
اس کے بہت سمجھنے کے با وجود وہ اسے گھر لے جا چکا تھا ، اور ایک ڈاکٹر کی حثیت سے وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی کے لیے یہ کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا تھا
وہ کس کس کے دکھ پر روے
وہ اپنے دکھ پر بھی رونا چاہتی تھی
وہ اپنی بے بسی پر بین کرنا چاہتی تھی
وہ علی زبیری کی قربت میں گزرنے والے وقت کی ناقدری پر دکھی تھی
وہ اپنے باپ کی دوری پر افسردہ تھی ، وہ باپ جو اس کی پہلی محبت تھا
وہ اپنی ماں کی بیماری پر نالاں تھی
وہ اپنے اکلوتے بھائی کی لا تعلقی پر رنجیدہ تھی
مگر اس لمحے میں، اپنے آپ سے سامنا کرنے کے اس ایک سچے لمحے میں ، وہ عمر حیات کی محبّت میں مبتلا ہو جانے پر سب سے زیادہ دکھی تھی
محبّت جو نہ وقت دیکھتی ہے نہ رت، نہ موسم نہ محل ، نہ عمر نہ فاصلہ، اسے جب وار کرنا ہو خاموشی سے آتی ہے اور زخم دے کر چلی جاتی ہے
زینیا شاہ نے تو ہر ممکن کوشش کر دیکھی تھی ، مگر وہ بچ نہیں سکی
اور آج جب اس کے یوں اچانک ملنے نے اسے سالوں بعد خوشی کے چند لمحے دے تھے وہیں اس کے خاموشی سے لوٹ جانے پر وہ کس قدر اداس تھی
اسے اپنی بے بسی پر رونا آ رہا تھا
زندگی میں سب کچھ طے شدہ نہیں ہوتا ، اور جو ہو رہا ہو اسے قبول کیے بنا چارہ بھی نہیں ہوتا.
وہ کسی بے چین بادل کی طرح یہاں سے وہاں دوڑتی سکوں ڈھونڈ تی پھر رہی تھی
یا پھر وہ کندھا جس پر سر رکھ کر وہ بہت سا رو سکے
مگر وہ تو بہت دور جا چکا تھا ، اور وہ پھر بھی ، کسی آس کے نہ ہونے کے با وجود بھی اس کی منتظر تھی
===================================================
اسے جانا ہی تھا . یہ تو وہ بھی جانتی تھی مگر پھر کیوں بے چینی سے ٹیریس پر اترنے والے بادلوں کی طرح ادھر سے ادھر، بے سمت چلتی جا رہی تھی
شام ڈھل رہی تھی مگر وہ تو جیسے وقت کے دائرے سے کہیں باہر نکل چکی تھی
اسے اب دن رات کا فرق بھی محسوس نہیں ہوتا تھا ، کچھ اس لیے بھی کہ وہ ایمر جنسی میں کسی بھی ہسپتال بلائی جا سکتی تھی اور کچھ یوں بھی کہ جب آپ کسی کی یاد میں ڈوبے ہوے ہوں تو وقت بھی اپنے ہونے کا احساس ثابت نہیں کر پاتا
زینیا شاہ نے زندگی میں سب سے بڑھ کر کچھ سیکھا تھا تو وہ اپنے اندر موجود احساسات کو قبول نہ کرنے کا فن تھا
denial
اور اس وقت بھی وہ اپنے اندر مچلتے، شور مچاتے، آنسو بہانے کو بیتاب ہوتے جذبوں کو رد کر رہی تھی
اسے عمر حیات کا واپس چلے جانا کسی دکھ میں مبتلا کر گیا تھا
مگر وہ خود کو یہ ہی باور کروا رہی تھی کہ اس کی بے چینی کی وجہ کچھ اور تھی
مثلا زیبی گل کے شوہر کا اسے زبردستی ہسپتال سے گھر لے جانا
اس کے بہت سمجھنے کے با وجود وہ اسے گھر لے جا چکا تھا ، اور ایک ڈاکٹر کی حثیت سے وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی کے لیے یہ کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا تھا
وہ کس کس کے دکھ پر روے
وہ اپنے دکھ پر بھی رونا چاہتی تھی
وہ اپنی بے بسی پر بین کرنا چاہتی تھی
وہ علی زبیری کی قربت میں گزرنے والے وقت کی ناقدری پر دکھی تھی
وہ اپنے باپ کی دوری پر افسردہ تھی ، وہ باپ جو اس کی پہلی محبت تھا
وہ اپنی ماں کی بیماری پر نالاں تھی
وہ اپنے اکلوتے بھائی کی لا تعلقی پر رنجیدہ تھی
مگر اس لمحے میں، اپنے آپ سے سامنا کرنے کے اس ایک سچے لمحے میں ، وہ عمر حیات کی محبّت میں مبتلا ہو جانے پر سب سے زیادہ دکھی تھی
محبّت جو نہ وقت دیکھتی ہے نہ رت، نہ موسم نہ محل ، نہ عمر نہ فاصلہ، اسے جب وار کرنا ہو خاموشی سے آتی ہے اور زخم دے کر چلی جاتی ہے
زینیا شاہ نے تو ہر ممکن کوشش کر دیکھی تھی ، مگر وہ بچ نہیں سکی
اور آج جب اس کے یوں اچانک ملنے نے اسے سالوں بعد خوشی کے چند لمحے دے تھے وہیں اس کے خاموشی سے لوٹ جانے پر وہ کس قدر اداس تھی
اسے اپنی بے بسی پر رونا آ رہا تھا
زندگی میں سب کچھ طے شدہ نہیں ہوتا ، اور جو ہو رہا ہو اسے قبول کیے بنا چارہ بھی نہیں ہوتا.
وہ کسی بے چین بادل کی طرح یہاں سے وہاں دوڑتی سکوں ڈھونڈ تی پھر رہی تھی
یا پھر وہ کندھا جس پر سر رکھ کر وہ بہت سا رو سکے
مگر وہ تو بہت دور جا چکا تھا ، اور وہ پھر بھی ، کسی آس کے نہ ہونے کے با وجود بھی اس کی منتظر تھی
===================================================
Comments
Post a Comment