فطرت
زمین سے جڑے رہنے کی طبیعت بھی کیسی فطرت ہے وہ ایک پودا جسے مٹی سے نمو پاتے ایک عمر بیتی ہو اس کو موسم کے سرد و گرم سہنے کو تنہا چھوڑ دیا جائے اس کی سانسیں ہوا کی تندی سے اکھڑتی جاتی ہوں اس کی پیاس کئ صحرا ناپ چکی ہو وہ رفتہ رفتہ اپنے آپ کو کھونے لگ جائے کوئ شاخ کوئ پھول کوئ پتہ زندگی کا پتہ نہ دیتا ہو پھر بھی کہیں گہری جڑوں میں کہیں زمین سے جڑے رہنے کی فطرت تازہ رہتی ہے بن موسم کی برسات میں جب ذرا سی نمی میسر آ جائے وہ پودا پھر سے کھل اٹھے اور شاخ پھر سے مسکرائے جانتے ہو محبت کی عین یہی طبیعت ہے زمین سے جڑے رہنا اس کی فطرت ہے نازش امین