دھند ١٩
وہ جا چکا تھا اسے جانا ہی تھا . یہ تو وہ بھی جانتی تھی مگر پھر کیوں بے چینی سے ٹیریس پر اترنے والے بادلوں کی طرح ادھر سے ادھر، بے سمت چلتی جا رہی تھی شام ڈھل رہی تھی مگر وہ تو جیسے وقت کے دائرے سے کہیں باہر نکل چکی تھی اسے اب دن رات کا فرق بھی محسوس نہیں ہوتا تھا ، کچھ اس لیے بھی کہ وہ ایمر جنسی میں کسی بھی ہسپتال بلائی جا سکتی تھی اور کچھ یوں بھی کہ جب آپ کسی کی یاد میں ڈوبے ہوے ہوں تو وقت بھی اپنے ہونے کا احساس ثابت نہیں کر پاتا زینیا شاہ نے زندگی میں سب سے بڑھ کر کچھ سیکھا تھا تو وہ اپنے اندر موجود احساسات کو قبول نہ کرنے کا فن تھا denial اور اس وقت بھی وہ اپنے اندر مچلتے، شور مچاتے، آنسو بہانے کو بیتاب ہوتے جذبوں کو رد کر رہی تھی اسے عمر حیات کا واپس چلے جانا کسی دکھ میں مبتلا کر گیا تھا مگر وہ خود کو یہ ہی باور کروا رہی تھی کہ اس کی بے چینی کی وجہ کچھ اور تھی مثلا زیبی گل کے شوہر کا اسے زبردستی ہسپتال سے گھر لے جانا اس کے بہت سمجھنے کے با وجود وہ اسے گھر لے جا چکا تھا ، اور ایک ڈاکٹر کی حثیت سے وہ جانتی تھی کہ اس کی زندگی کے لیے یہ کتنا خطرناک