دھند 23

وہ جتنی تیزی سےگاڑی  دوڑا سکتا تھا اتنی جلدی ہسپتال پنہچا تھا 
اس کے پاس   وقت نہیں تھا کہ وہ شیرل کو گھر پنہچا دیتا ، نہ ہی اسے اس   بات کی پرواہ تھی 
اس لمحے کا سب سے بڑا سچ یہ تھا کہ اسے زینیا کی فکر تھی 
کبھی کبھی وقت  کسی کے امتحان کے ذریے ، کسی اور کو حتمی نتیجے پر پنہچا دیتا ہے 

 میں لالہ اسے پنہچا چکے تھے ER 
دیکھنے میں مصروف تھے جس لمحے وہ پہنچا تھا  ECG ریذیڈنٹ ڈاکٹرز اس کے وائٹل اور

اس کے آتے ہی ایک کھلبلی مچی تھی ، جہاں ڈاکٹر عمر کی موجودگی ہوتی وہاں ریذیڈنٹ ڈاکٹرز کی سانس روکنے لگتی تھی 
سب اس کے ڈسپلن سے واقف تھے 

اس نے بے قرار سی نظر زینیا پر ڈالی ، ڈاکٹر  سارا ان کے پوچھنے سے پہلے ہی ہسٹری سنانا شروع  کر چکی تھیں 

مگر وہ سن کب رہا تھا 

اس نے بیڈ کے بایں  پہلو کے پاس ٹھہر کر زینیا پر ایک نظر ڈالی ،  اس کا چہرہ بلکل سفید تھا ، ایک لمحے کو اسے یہ بھی بھول گیا کہ وہ ایک ماہر نیورولوجسٹ تھا 

اس نے اس کے  سرد ہاتھ کو تھام کر اس کی نبض دیکھی ، جو کچھ تھمی ہوئی   سی تھی
 لے کر دیکھی ECGڈاکٹر سارا سے اس کی   
 اور ویوز تو ٹھیک ہیں بس ہارٹ ریٹ کچھ کم ہے rhythm سر  

بلڈ شوگر ؟

"سر لو  ہے" 
" کھانا کب سے نہیں کھایا؟" انہوں نےپلٹ  کر لالہ سے سوال کیا 

"کل سے کچھ نہیں کھایا "

" لگا دیں |dextrose اسٹاف "

" یہ شوگر کی مریضہ تو نہیں؟ : ڈاکٹر سارا نے لالہ سے  پوچھا 

"نہیں" لالہ کے جواب دینے سے پہلے وہ خود ہی بول اٹھے ، وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی تو کسی خیال کے تحت  انہوں نے کہا 

"she is family"

تھیں  VIP ڈاکٹر سارا سمیت تمام اسٹاف الرٹ پر تھا ، یہ مریضہ

وہ اب تک بے حس پڑی تھی ، اس کی بیہوشی کی وجہ شوگر کی کمی تھی یا کوئی ذہنی بوجھ؟ یہ انہیں ابھی معلوم کرنا تھا 

 چیک کیا ڈوکٹر سارا؟GCS 

"نو سر، ابھی وائٹل ہی  دیکھ رہی تھی "

 میں  زیادہ مصروف تھا GCS وہ ڈاکٹر سارا کے جواب سے زیادہ اس کے 

اس نے قریب جا کر اسے پکارا 

"زینیا"

کوئی جواب نہیں تھا 

اس نے اس کے ہاتھ تھام کر  اسے ہلایا "زینیا"

کوئی حرکت نہیں ہوئی 
اس نے ماتھے پر موجود پریشر پواینٹ پر دباؤ ڈالا 

اس کی آنکھیں پھر ا  پھریں 

ایک سکوں کی سانس جیسے اس کے دل سے خارج ہوئی، 
اس کا مطلب تھا وہ ہلکی سی بے ہوشی میں تھی مگر اس کا برین ڈیمیج نہیں ہوا تھا 
GCSابھی
 معلوم کرنے کے اور مرحلے تھے مگر زندگی  میں پہلی بار  ڈاکٹر عمر کو اپنی صلاحیتوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا  اس لیے   اس نے یہ ذمے داری سارا کے حوالے کی اور اور خود پیچھے ہو گیا   

ااتنا پریشان تو وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا 

 لالہ کو ساتھ لے کر وہ باہر نکل آیا اور ان سے ساری  تفصیل جاننے لگا 

زینیا شاہ سے ایسی ہی کسی بے وقوفی کی امید تھی اسے 

پہلے ہی جذباتی طور پر وہ کم منتشر تھی کہ اب ایک مریضہ کے غم میں اپنی یہ حالت کر لی تھی اس نے 

" بے بی  ہوش میں تو آ جاییں گی نہ عمر صاحب ؟"

لالہ کے لیے وہ اب تک بے بی تھی، جانے کیا سوچ کر وہ مسکرا سیا

" ابھی دیکھیں گے  آپ کیسے ہوش میں واپس لاتے ہیں آپ کی بے بی کو لالہ "

 میں چلے گئے ER وہ ان کا کندھا تھپ تھپا  کر واپس  

======================================


Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)