دھند 22
بارش تیزی سے برس رہی تھی ، گرنے والی بوندیں ایک تواتر سے گاڑی کی چھت پر کوئی اجنبی سا ساز بجا رہی تھیں
بجلی کی وقتاً فوقتاً ہونے والی چمک اندھیرے راستے کوئی چند لمحوں کے لیے چمکیلا کر دیتی تھی
سڑک پر چکناہٹ تھی، ٹائر جیسے پھسلتے جا رہے تھے ، مگر انہوں نے ڈرائیونگ جاری رکھی. بہت کوشش کے باوجود وہ اس توجہ سے گاڑی نہیں چلا پا رہے تھے جس توجہ کا یہ موسم تقاضا کر رہا تھا ، کیوں کہ گاڑی میں پچھلی نشست پر موجود وہ وجود ان کی توجہ بانٹنے کے لیے کافی تھا
جہاں رشتے اور تعلّق پرانے ہوں، انسیت خود بہ خود جنم لیتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کری چلی جاتی ہے
وہ جو اس وقت پچھلی نشست پر نیم بے ہوشی کے سے عالم میں چپ چاپ پڑی تھی، جسے اسلام آباد پہنچانا ان کی ذمہ داری تھی ، اس سے انہیں کوئی بے نام سی انسیت تھی
وہ جو ان کے سامنے کلتے کودتے، ہنستے، روتے، چلّاتے اور شور مچاتے جانے کب ایک ماہر ڈاکٹر بن گئی تھی، اس سے انہیں کوئی جذباتی وابستگی تھی.
وہ روٹی تو اس کے آنسو ان کے دل پر گرتے تھے
وہ اداس ہوتی تو ان کا بس نہیں چلتا کہ اسے کسی طرح ہنسا دیں
وہ ناراض ہوتی ، کسی سے بھی ناراض ہوتی تو اسے منانے کے مختلف بہانے ڈھونستے
اور جب وہ انہیں لالہ کہ کر پکارتی تو انہیں اس پر ایک چوٹی بہن کا سا پیار اتا
اور آج اس حال میں ، اس نیم بے ہوشی کے عالم میں وہ اسے نتھیا گلی سے اسلام آباد لے جاتے ہوے ، اس سرد اور بھیگی رات میں وہ خود بہت بے چین تھے
==================================================
کراچی ائیرپورٹ سے جانی والی پرواز حسب معمول تاخیر کا شکار تھی
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایئر لائن والوں کو ہلا کر رکھ دیں
ان کی بیٹی ان سے کتنی دور تھی اور اس نے کس حال میں وہیں پکارا تھا
احسن شاہ بخاری نے شاید ہی کبھی اتنی بے بسی محسوس کی ہو.
وہ بے چینی سے انتظار گاہ میں ٹہل رہے تھے
گھر میں کوئی ایسا نہ تھا جسے اطلا ع کی جاتی . ہما خود مریضہ تھی، اسے تو یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ ان کی ایک بیٹی اور بیٹا بھی تھا
بیٹے کو فون کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ، وہ امریکا میں ایک مصروف زندگی گزار رہا تھا، افسوس کے چند الفاظ کہنے کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا لیتا
جو کرنا تھا انہیں ہی کرنا تھا
انہیں زینیا کا خیال رکھنا تھا ، اسے محبّت دینی تھی ، اس کی بدگمانیوں کو دور کرنا تھا ، اسے اپنی محبّت کا یقین دلانا تھا
وہ جلد از جلد اسلام آباد پہنچنا چاہ رہے تھے مگر فلائٹ تاخیر کا شکار تھی
=====================================================
وہ کافی عرصے بعد "مونال" آیا تھا
شیرل نے کافی دنوں سے فرمائش کی ہوئی تھی مگر وہ وقت ہی نہیں نکل پا رہا تھا اور اب جب اس کے واپس جانے کے دن قریب تھے اس نے سوچا اسے شیرل کو لے کر مونال ضرور جانا چاہیے
موسم خوبصورت تھا ،ہلکی ہلکی سی خنکی کے ساتھ بوندا بندی بھی ہو رہی تھی اور مونال کی اونچائی سے نظر انے والا خوبصورت منظر اور جاذب نظر ہو گیا تھا
شیرل بہت خوش تھی ، اس کی آنکھوں، مسکراہٹوں، اور انداز ہر بات میں خوشی نظر آ رہی تھی
وہ عمر کی بہت اچھی دوست تھی ، مگر دوست سے کچھ زیادہ ہونے کے بارے میں وہ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا
مگر جب وہ شیرل کو اپنی مجودگی میں یوں کھلکھلاتا ہوا خوش ہوتا دیکھتا تو اسے ڈر لگنے لگتا ، وہ کسی کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا مگر وہ عمر کی اس اسٹیج پر تھا جہاں فیصلے اٹل ہوتے ہیں ان میں بدلاؤ نہیں ہوتا
وہ ایسی ہی کسی سنجیدہ گفتگو کے لیے موقع ڈھونڈ رہا تھا اور آج اس تنہائی نے اسے یہ موقع دے دیا تھا
ابھی وہ لوگ مینو طے کر رہے تھے جب اس کا سیل بج اٹھا
وہ اگنور کر دیتا اگر اتنا اہم نمبر نہیں ہوتا
" جی انکل "
"what ؟"
"ایک لمحے کو اسے لگا مونال جس اونچائی پر ہے ، وہ اس اونچائی سے نیچے پھینک دیا گیا ہے
احسن شاہ بخاری اسے یہ بتا رہے تھے کہ زینیا شاہ کو ڈسٹربڈ مینٹل سٹیٹس کے ساتھ اسلام آباد لایا گیا تھا اور وہ گھر پہنچتے ہی بے ہوش ہو چکی ہی، وہ خود کراچی ائیرپورٹ سے روانہ ہو چکے تھے مگر ابھی انہیں اسلام آباد پہنچنے میں کافی وقت لگنا تھا
عمر کی ڈوکترانا ایمرجنسی والی حس چند لمحوں میں فعال ہوئی اور اس نے لالہ سے رابطہ کر کے انہیں اس ہسپتال پہنچنے کے لیے ہدایات دین جہاں وہ خود ایک کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا ، ویسے بھی وہ شہر کا بہترین ہسپتال تھا،
زینیا شاہ کی حسساس طبعیت نے یہ دن بھی دکھانا تھا
وہ بے حد پریشان تھا اور یہ سب شیرل سے چھپا بھی نہیں تھا
وہ اس سے معذرت کرتا ہوا اب واپس شہر کی طرف جا رہا تھا
وہ عمر کی ساری فیملی کو جانتی تھی، اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ فیملی اور اہم لوگوں میں نیا اضافہ کس کا تھا
وہ چپ چاپ خاموشی سے ، پریشان چہرے والے عمر کو ڈرائیونگ کرتے دیکھتی رہی.
=====================================
Comments
Post a Comment