دھند 24

 میں تھا ERوہ ایک بار پھر  

وہ دشمن جان ابھی تک بے ہوشی کی اسی  کیفیت میں تھی ، متعدد ڈاکٹر اور اسٹاف اس کی خبر گیری  میں مصروف تھے 
وہ بے بسی  کے عالم میں بستر کے  سرہانے کھڑا اسے دیکھتا رہا 
ہر ڈاکٹر کی پیشہ ورانہ زندگی میں ایسی بے بسی کے لمحے ضررو آتے   ہیں جب وہ اپنی بے شمار صلاحیتوں اور قابلیت کے با وجود  اپنے مریض کو زندگی کی طرف لوٹا نے میں ناکام ہو رہا ہوتا ہے 

مگر جب مریض کوئی اپنا ہو، جس سے دلی یا جذباتی وابستگی بھی ہو تو بے بسی کی کیفیت اذیت دینے لگتی ہے 
وہ بھی ایسی ہی غیر بیانیہ سی اذیت سے گزر رہا تھا 

 سے باہر آنے پر اسے یاد آیا ER 

وہ تو کسی کے ساتھ یہاں ہسپتال پنہچا تھا ، اور زینیا کی  پرواہ کرتے کرتے وہ شیرل کی مجودگی کو یکسر فراموش کر چکا تھا 

اسے افسوس نے آ گھیرا 

 کے ساتھ مصروف تھی ipad وہ ویٹنگ لاؤنج میں اپنے 
 عمر اس کے برابر آ کر   بیٹھ گیا 

: سب ٹھیک  ہے؟" اس نے  پوچھا 

"وہ اب تک ہوش میں نہیں آئی، میرا خیال تھا کہ وہ جلدی جاگ جاے  گی 

"کیا وہ شاک میں ہے ؟ "

"ہاں کوئی  گہرا ذہنی صدمہ ہے، وہ ایک ڈاکٹر ہے   اور سرجری کے دوران آج اس کی ایک مریضہ کا انتقال ہو گیا "

"اوہ ، لگتا ہے وہ  بہت حسساس ہے ، ہمارے پروفیشن میں تو یہ باتیں دیکھنے کی عادت ہو جاتی ہی ؟

عمر جانتا تھا کہ شیرل کا تجزیہ بلکل درست تھا مگر وہ اسے زینیا کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں تو نہیں بتا سکتا  تھا 

"کیا یہ تمہاری دوست ہے عمر؟ یا کولیگ؟ "

اس نے  آخر وہ سوال پوچھ ہی لیا جو وہ کتنی دیر سے پوچھنا چاہ  رہی تھی 

"فیملی فرینڈ ، اس کے والد شہر سے باہر تھے، اور کوئی گھر میں نہیں تھا جو اسے دیکھ  پاتا ، اسی لیے مجھے ڈنر چھوڑ کر آنا پڑا ، میں معافی چاہتا ہوں  شیرل ، ہم ساتھ ڈنر نہیں کر پاے ، میرے خیال میں تمھیں اب گھر جانا چاہیے ، بہت دیر ہو چکی 

میں کسی سے کہ کر تمھیں بھجوا دیتا ہوں 
وہ کہتے ہوے اٹھنے لگا تب  اس نے پوچھا 

"اور تم عمر؟" تم گھر کب  جاؤ گے "

اسے خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا جاننا چہ رہی ہے 
"میں کم از کم اس وقت تک یہاں سے نہیں جا سکتا جب تک وہ ہوش میں نہ آ جاتے "

شیرل کو ایک لمحے کے لیے افسوس ہوا، اچھا تھا اگر وہ اس سوال کا جواب نہ کھوجتی 

کچھ دن اور سہی ، اس کی امیدوں کا بھرم  ہی رہ جاتا 

عمر نے لالہ کی ذمداری میں اسے گھر روانہ کیا اس ہدایت کے ساتھ کہ وہ کھانا ضرور کھاے گی 

 " کیا عمر حیات سے زیادہ خیال رکھنے والا انسان کوئی اور ہو سکتا تھا ، اس پریشانی میں بھی اسے شیرل کے کھانا نہ کھانے  کا خیال تھا "

اسے افسوس ہونے لگا،  پچھلے چند سالوں میں ، جب سے وہ عمر حیات کو جانتی تھی ، پہلی بار اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اسے کھو رہی ہے 

اسے اس بیہوش لڑکی پر رشک آیا ، اتنا رشک جو اسے آج تک کسی پر نہیں آیا تھا 


===============================


Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)