دھند 25

 اس نے امریکا  میں موجود ساتھی ڈاکٹروں  سے رابطہ کر کے انہیں زینیا شاہ کی مجودہ صورت حال سے آ گاہ کر  دیا تھا 
. چونکہ وہ وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر  وہاں کے  ہسپتال سے  منسلک تھا اس کے لیے یہ سب کرنا مشکل نہ  تھا 

مشکل  تو یہ تھا کہ وہ ہوش میں نہیں آ رہی تھی ، شاید آنا نہیں چاہ رہی تھی 

    احسن شاہ بخاری کو کسی بھی وقت ہسپتال میں پہنچ جانا تھا اور وہ نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ اسے اس حال میں دیکھیں 
لیکن چاہنے سے ہر نہ ممکن ، ممکن تو نہیں ہو جایا کرتا 

وہ اب بھی اس کے سرہانے کھڑا تھا  اور سوچوں میں غلطاں تھا 

وہ کوئی اجنبی تھی جس کے چہرے پر بکھری ہوئی زردی میں اسے موت  جھلکتی دکھائی دے رہی تھی 
 وہ کوئی اپنی تھی جسے زندگی کے کینوس پر رنگوں کی طرح کھلتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا وہ.

---------------------------------------------------------------------------------

نرسنگ کاونٹر پر ایک کھلبلی سی مچی ہوئی تھی 

ڈاکٹر عمر کے ذاتی مریض  پہلے بھی کئی بار اس وارڈ  میں   آتے رہے تھے ، مگر  خود انکو اس طرح پریشان  اور گم سم کسی نے نہیں دیکھا تھا 

"میں نے اس مریض کو کہیں دیکھا ہے " ایک نرس نے کہا " شاید  ٹی  وی  پر ، مجھے لگتا ہے یہ کوئی ماڈل ہے 

"تمھیں تو ہر خوبصورت لڑکی ماڈل  ہی لگتی ہے .رہنے بھی دو " اس کی ساتھی  نے کہا

لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عمر کو اس سے پہلے اتنا پریشان نہیں دیکھا میں نے. مجھے تو کچھ اور ہی معاملہ لگتا ہے "

" مگر سیمی نے تو کہا تھا کہ ڈاکٹر عمر کی بیگم امریکن ہیں. " 

"ووہی تو نہیں جو کچھ دیر پہلے یہاں موجود تھیں؟"

"ہاں وہی "

وارڈ بونے نے آ کر انہیں خاموش ہونے کا اشارہ کیا کہ سامنے سے آتے ہوے ڈاکٹر عمر کو اس نے دیکھ لیا تھا 

انہوں نے دیکھا ڈاکٹر عمر  پاس سے گزر کر کوریڈور میں آگے کو  نکل گئے تھے 

احسن شاہ بخاری نی عمر کو اتے دیکھا تو ان کی رہی سہی ہمّت جواب دینے لگی " کیسی ہے  وہ عمر؟"
"ابھی ہوش میں نہی ہے " عمر نے ان کے کندھے کے گرد بازو حمائل  کیے 

"کیا وہ کوما میں ہے؟"

"   GCS   نہیں اس کا   
 بہتر ہے . ہم اسے کوما نہیں کہ سکتے. یہ بیہوشی ہی صدمے کی وجہ سے. ، وہ جاگ جاتے گی، آپ صبر کریں "

کب تک؟" مجھے وقت بتاؤ عمر ، اگر باہر جانا ہے تو کہو میں امریکا لے جاتا ہوں اسے 

" مجھے چوبیس گھنٹے چاہیے ، اس کے بعد ہی میں کچھ کہ سکون گا . امریکا کے دوستوں سے رابطے میں ہوں، اگر وہاں لے جانے کی ضرورت ہوئی تو میں خود لے جاؤں  گا ، آپ مجھ پر عتماد کر سکتے ہیں انکل " وہ بہت تحمل سے گفتگو کر رہا تھا ، اپنے اندر ہونے والی جنگ سے تو صرف وہ ہی واقف تھا 

مجھے لے چلو اس کے پاس ، رندھی ہوئی آواز میں وہ کہنے لگے، عمر نے نظر پھیر لی، وہ ایک باپ کی آنکھوں میں اے آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا 

وہ باپ جو اپنی بیٹی سے شدید محبّت کرتا تھا ، جو اس کی کوئی بات نہیں جھٹلاتا تھا ، جو اس کی ضد  میں اس کی جدائی بھی خاموشی سے سہ رہا تھا 

"میں لے چلتا ہوں آپ کو ، صرف یہ بتا دیں کیا اس سے پہلے کبھی کوئی ایسی بات ہوئی ہے جس  کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوئی ہو؟"

"ہاں تین سال پہلے ایسا ہوا تھا ، وہ بہت دیر تک ہوش  میں نہی آئی تھی "

کیا ہوا تھا تین سال پہلے؟" عمر نے پچا 

"her breakup with Ali"  وہ سر جھکا کر بولے تھے 

ایک لمحہ تھا صرف جب عمر کو محسوس ہوا تھا اس کی سانس کہیں غائب ہوئی تھی ، یا کسی نے اس کا دل مسلا  تھا 
اور پھر وہ احسن انکل کا بازو تھامے انہیں ائی سی یو لے جانے لگا 














Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)