دھند 26

کبھی کبھی زندگی بس اک لمحے میں  سمٹ آتی ہے ، ساری کی ساری زندگی 

ایسا ہی ہوا تھا اس کے ساتھ ، وہ اپنا سارا پروفشونلزم بھول بیٹھا تھا  اور صرف اس ایک لمحے کا منتظر تھا جب وہ آنکھیں کھول کر اپنے زندہ   ہونے کا احساس دلاے . مشینوں پر اس کی سانس، دل کی دھڑکن، دماغ کی برقی رو ، سب اس کی زندگی  کی گواہی دے رہی تھیں مگر  اسے کچھ اور درکار تھا،

خاموشی میں گفتگو کرنے والی اس کی آنکھوں کا تکلّم 
اور کسی مجمے میں خاموشی کا فسوں طاری کردینے والی اس کی آواز 

وہ ائی سی یو کی خاموشی میں گونجتی احسن شاہ بخاری کی اسے پکارتی ہوئی آوازیں سنتا رہا   

اور چپ چاپ ساکن  ہو کر  اس کے بستر کے بایں جانب کھڑا اسے دیکھتا رہا 

اور زندگی جیسے اس ایک لمحے میں سمت آئی  تھی . اور وہ لمحہ ٹھہر گیا تھا . 

اس نے  احسن شاہ کو ساتھ لیا اور باہر یخ ہوتے کوریڈور میں لے آیا 

عمر وہ کب جاگے گی ؟، وہ بے بسی سےپوچھ  رہے تھے
"
" میں نے آپ سے کہا نا مجھے کچھ  وقت چاہیے ، اس سے پہلے جب وہ یونہی بے ہوش ہوئی تھی تو کتنا عرصہ لگا تھا "ہوش میں آنے میں؟ 

"آدھا دن "

 پھر اس بار اس سے کافی زیادہ عرصہ درکار ہوگا اسے جاگنے میں ، وہ سونا چاہتی ہے ، آنکھیں بند کر کے خود کو محفوظ تصور کرنے والے لوگوں کے ساتھ ایسے ہی ہوا کرتا ہے، وہ آنکھیں کھول کر دنیا کا سامنا نہیں کرنا چاہتے، جب اس کا ذھن اس بات کے لیے تییار ہوگا وہ تبھی جاگے گی "

اس نے احسن شاہ جیسے مضبوط حواس والے شخص کی آنکھوں میں جب آنسو دیکھے تو اسے ایک بار پھر محبت کی سچائی پر یقین پختہ ہونے لگا . وہ تو چاہنے کے باوجود رو نہیں سکتا تھا ، نہ آج نہ ہی ایسے کسی اور موقۓ پر. کیوں کہ  وہ تو مسیحا تھا اور مسیحا روتے نہیں، آنسو صاف کیا کرتے ہیں 

اس نے پھر اپنے مسیحا ہونے کی ذمداری نبھائی اور اور لالہ کے ساتھ زبردستی انہیں گھر روانہ کیا حالاں کہ وہ وہیں ٹھہرنے پر بضد تھے 
ڈاکٹر عمر نے خاموشی سے فون اٹھایا اور کوئی نمبر ملایا ، میری لینڈ میں اس سمے صبح ہوگی ، وہ  ٹائم زون کا حساب کرنے میں ماہر ہو چکے تھے 

داور کو ساری صورت حال سے اگاہ کرنا ضروری تھا ، عمر کو گمان تھا کہ اسے اب تک کچھ بھی نہیں معلوم ہوگا 

داور اور وہ دونوں کافی اچھے دوست تھے ، بہت قریبی نہ سہی مگر رابطے میں رہنے والے فیملی فرنڈز ضرور تھے  اور اب جب ہنی شاہ یوں بے ہوشی میں مبتلا تھا ایک بھائی ہونے کے ناطے  اس کا با خبر ہونا ضروری تھا 

داور  کے لیے یہ سب ایک شاک تھا ، وہ بے چین ہو گیا ، وہ جانتا تھا ڈیڈ کس کرب سے گزر رہے ہونگے، ایک جانب ماں کی وہ حالت دوسری جانب ہنی کی بے ہوشی ، وہ پاکستان آنے کا ارادہ ظاہر کرنے لگا جب عمر نے اسے کسی مناسب وقت تک ٹھہر جانے کو کہا ، عجیب لمحہ تھا جب کوئی فیصلہ ٹھیک سے نہیں ہو پا رہا تھا 

کچھ لمحے بہت عجیب ہوتے ہیں 




Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)