دھند 27
تھکن سے نڈھال جب وہ گھر میں داخل ہوے تو انہیں یہاں کی خاموشی ہمیشہ سے کہیں زیادہ محسوس ہوئی . داور اور ہنی کی کمی کا احساس شدید ہو گیا ، انہیں کسی سہارے کی ضرورت تھی، کسی سے حال دل کہنے کی حاجت تھی، کتنا تلخ سچ ہے یہ کہ انسان چاہیے کتنا بھی مضبوط ہو ، کتنا ہی با اختیار ہو ، اسے سہارے کی ضرورت پھر بھی ہوتی ہے ، اسے کسی ہمراز کی، کسی ساتھی کی ضرورت پھر بھی ہوتی ہے
کمرے میں آے تو منظر وہ نہیں تھا ، جس کی انہیں امید تھی. وہ خلاف توقع جاگ رہی تھی ، اور یوں تیار تھی جیسے ابھی کسی پارٹی میں جانے کا وقت ہو رہا ہو.. نیلی ساری میں فیروزے کے ایررنگز پہنے ، اور بہت مہارت سے میک اپ کیے ، وہ آج بھی اتنی ہی حسین تھی کہ چند لمحوں کے لیے احسن شاہ بخاری یہ بھول گئے کہ وہ بیمار تھی.
"تم آ گئے؟ ، میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی " وہ قریب آ کر کہنے لگی/
"سارا ، ہماری بےبی ہسپتال میں ہے " اسے شانوں سے تھام کر جیسے وہ حوصلہ کھونے لگے "
"ہماری بے بی ؟" وہ اجنبی سے احساس کے ساتھ ینہیں دیکھنے لگی "
"ہاں ہماری ہنی ، ہماری زینیا ."
"ہنی؟ یہ کون ہی؟ میں اس نام کی کسی لڑکی کو نہیں جانتی. پھر کوئی نئی دوست بنا لی تم نے؟"
"احسن شاہ نے آنکھیں میچ کر اپنے دکھ کو بیہ جانے سے روکا ، نہیں یہ صرف ایک واہمہ تھا کہ وہ ٹھیک ہو گئی ہے "
" اچھا تم اب سو جاؤ ، میں بھی تھک چکا ہوں" ان کی آواز جیسے کسی کنوئیں سے آتی محسوس ہوئی."
"نہیں، ہمیں تو پارٹی میں جانا تھا نہ ، میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی، تم نہیں سو گے، تم میرے ساتھ چلو گے" وہ ضد کرنے لگی
اسی لمحے ان کا سیل فون شور مچانے لگا
"داور " کا نام دیکھ کر وہ بےچینی اور سکون کی کسی درمیانی کیفیت میں چلے گئے .
وہاں وہ شکوہ کناں تھا کہ اسے خبر کیوں نہیں کی گئی اور وہ ہنی کی طبیت پوچھتے ہوے بے قرار تھا . اور ایسا پہلی بار تھا کہ احسن شاہ بخاری نے اسے فوری طور پر پاکستان آنے کو کہا ہو ، ورنہ وہ ہمیشہ اس کی مصروفیت کو فوقیت دیا کرتے تھے
"کون تھا فون پر؟" وہ پوچھنے لگی، احسن شاہ کو پھر پرانے زمانے یاد آنے لگے، جب وہ یونہی ان پر شک کیا کرتی تھی ، اور تب انہیں سخت غصّہ آیا کرتا تھا ، اور اب اس کا پوچھنا بھی نعمت لگتا تھا، ایسا لگتا تھا کہ وہ صحت مندی کی جانب لوٹ رہی ہو، شاید وہ سب کچھ جو وہ بھولتی جا رہی تھی، وہ اسے یاد آ جاے ، شاید وہ وہی سارا بن جاے جس سے انہوں نے عشق کیا تھا جو ان دو خوبصورت بچوں کی ماں تھی، جو اب اپنے بچوں کو بھی بھولتی جاتی تھی
سگریٹ سلگا کر کھڑکی کے پاس کھڑے وہ بہت بے قرار تھے
کیا نہیں تھا ان کے پاس ، ایک رشک آمیز زندگی، ایک خوبصورت جیوں ساتھ، دو ہونہار بچے ، دولت، اور نام
اور کیا تھا ان کے پاس؟
سکوں کا کوئی ایک لمحہ، سچی خوشی ، نہ وہ ساتھ جس سے وہ دل کی بات کہ سکتے، نہ اولاد کو خوش دیکھنے کا سکھ ، نہ مکمّل خاندان کا طمانیت بھرا احساس.
اور اب ان کی جان سے عزیز بیٹی ہسپتال میں بے ہوش پڑی تھی اور وہ اپنا ساری دولت خرچ کر کے بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر پا رہے تھے
آج یوم حساب تو نہیں تھا
مگر ان کی روح ان سے حساب مانگ رہی تھی
Comments
Post a Comment