دھند 13
آس پاس چہچہاہٹ تھی پرندوں کی، سرسراتی ہوا ، کھلتے ہوے پھول اور ایک خوشگوار ان دیکھی مہک
مگر اسے کچھ بھی خوشگوار نہیں لگ رہا تھا
جب جذبے سو جاییں، مر جایں یا فنا کی وادی میں گم شدہ ہو جایئں تو کچھ بھی خوش گوار نہیں لگتا بلکہ اک بوجھ کا سا احساس دینے لگتے ہیں
اس نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ اس کی جذبوں کی شدت یوں ماند پڑے.
اس نے تو انہیں زندہ رکھنے کی بہت جتن کے تھے
اور آج جب وہ شخص ، جس کی آہٹ پر بھی اس کا دل دھڑک اٹھتا تھا، آج جب وہ یوں اس کے بالمقابل تھا تو وہ کسی بت کی طرح ساکن تھی
اسے کچھ بھی تو محسوس نہیں ہو رہا تھا
وہ اب کسی سین کی شوٹنگ میں مصروف تھا
ساتھ کام کرنے والی ایکٹر بہت خوبصورت تھی
علی زبیری کے آس پاس کوئی خوش ادا نہ موجود ہو یہ ہو نہیں سکتا تھا
وہ جانا چاہتی تھی مگر علی نے اسے پرانے و وقت کا واسطہ دے کر روک رکھا تھا
شوٹ نپٹا کر وہ اسی کے پاس آیا . اور اس کے شانوں کے گرد بازو پھیلا کر سب لوگوں سے اس کا تعرف کروانے لگا
زینیا کو کسی ناگوار سے احساس نے گھیر لیا.
وہ جو مسکرا کر خوش اخلاقی نبھانے کی ناکام سی کوشسش کر رہی تھی ،وہ بھی اب اسے بار محسوس ،ہونے لگی
وہ علی کا ہاتھ جھڑک کردور کرنا چاہتی تھی
چھو ون کا احساس بھی جذبوں سے جڑا ہوتا .ہے گویا ، جہاں جتنا لگاؤ ہو وہاں اتنی ہی قربت ، اگر محبّت نہ ہو تو چھو ون بھی بوجھ کی طرح محسوس ہونے لگتی ہے
اور جہاں جذبے چاہت کے ہوں وہاں شدّت کو روپ دینے کے لیے اس سے خوبصورت اظہار نہیں ہو سکتا
اسے حیرت ہو رہی تھی
کیا جذبے یوں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں
کیا احساس یوں سو جاتے ہیں؟
کبھی یہی وہ لمس تھا جس کی چاہت اس کی سب سےبڑی آرزو تھی
اور آج لمس ووہی تھا ، جذبہ مر چکا تھا،
احساس بوجھ ہو گیا تھا
اسے اس لمس سے گھن آ رہی تھی
و
یہ ووہی ماحول تھا جس میں اس نے کئی برس گزارے تھے
جو اس کے لیے صبح اور شام تھا
اور اب یہی ماحول تھا جس سے وہ بھاگ جانا چاہتی تھی
کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہ بناوٹی چہرے تھے ، جو بظاھر خوبصورت اور خوش اخلاق تھے ، مگر ان کی اصلیت سے واقف ہونے کے بعد زینیا شاہ کے لیے وہ اب خوبصورت نہیں رہے تھے
نہ جانے اس نے علی سے کیا بہانے گھڑے تھے اسے کچھ ہوش نہیں تھا
وہ صرف یہ جانتی تھی کہ وہ ان لوگوں اور اس ماحول سے نکل کر آزاد ہو چکی تھی
اور تیز قدم اٹھا تے ہوے آ گے بڑھ رہی تھی ک کہیں پلٹ کر دیکھنے پر کوئی کمزور لمحہ اسے پھر اسی ماحول میں واپس نہ کھینچ لے
=====================================================
زینیا کو کسی ناگوار سے احساس نے گھیر لیا.
وہ جو مسکرا کر خوش اخلاقی نبھانے کی ناکام سی کوشسش کر رہی تھی ،وہ بھی اب اسے بار محسوس ،ہونے لگی
وہ علی کا ہاتھ جھڑک کردور کرنا چاہتی تھی
چھو ون کا احساس بھی جذبوں سے جڑا ہوتا .ہے گویا ، جہاں جتنا لگاؤ ہو وہاں اتنی ہی قربت ، اگر محبّت نہ ہو تو چھو ون بھی بوجھ کی طرح محسوس ہونے لگتی ہے
اور جہاں جذبے چاہت کے ہوں وہاں شدّت کو روپ دینے کے لیے اس سے خوبصورت اظہار نہیں ہو سکتا
اسے حیرت ہو رہی تھی
کیا جذبے یوں بھی تبدیل ہو جاتے ہیں
کیا احساس یوں سو جاتے ہیں؟
کبھی یہی وہ لمس تھا جس کی چاہت اس کی سب سےبڑی آرزو تھی
اور آج لمس ووہی تھا ، جذبہ مر چکا تھا،
احساس بوجھ ہو گیا تھا
اسے اس لمس سے گھن آ رہی تھی
و
یہ ووہی ماحول تھا جس میں اس نے کئی برس گزارے تھے
جو اس کے لیے صبح اور شام تھا
اور اب یہی ماحول تھا جس سے وہ بھاگ جانا چاہتی تھی
کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہ بناوٹی چہرے تھے ، جو بظاھر خوبصورت اور خوش اخلاق تھے ، مگر ان کی اصلیت سے واقف ہونے کے بعد زینیا شاہ کے لیے وہ اب خوبصورت نہیں رہے تھے
نہ جانے اس نے علی سے کیا بہانے گھڑے تھے اسے کچھ ہوش نہیں تھا
وہ صرف یہ جانتی تھی کہ وہ ان لوگوں اور اس ماحول سے نکل کر آزاد ہو چکی تھی
اور تیز قدم اٹھا تے ہوے آ گے بڑھ رہی تھی ک کہیں پلٹ کر دیکھنے پر کوئی کمزور لمحہ اسے پھر اسی ماحول میں واپس نہ کھینچ لے
=====================================================
Comments
Post a Comment