دھند 15

 اور کتنی ہی دھند سے بوجھل زندگی کی  شامیں تھیں جب زینیا شاہ کوہ مری کے اس مشور زمانہ کو نو نٹ اسکول کی قدامت بھری اینٹوں سے بنی  عمارت کی  اونچی محرابوں  والی طویل راہداریوں میں بکھرے بالوں سمیت بھٹکتی پھرتی تھی 

کسی انتظار میں سلگتی ہوئی 

کسی کی آمد کا انتظار 
کسی کے وعدے  کے ایفا ہونے کا انتظار 
کسی اچھے لمحے کا انتظار 
اور کسی کی محبّت کا انتظار 

اس کی زندگی بھی انتظار کے مختلف رنگوں سے رنگی ہوئی تھی 

چھٹیاں ہوتیں تو وہ ڈیڈ  کے انے کا انتظار شروع کر دیتی 
کہیں گھومنے جانے کی پلاننگ 
کہیں شاپنگ کے پروگرام، مما کے ساتھ  کلبز اور پارلر کی  اپائنٹمنٹس 
مگر یہ سب وقت کتنا تیزی سے گزر جاتا  
اور اس کے بعد وہ اور صبور اپنے اپنے ہوسٹلز  کو لوٹ جاتے 

اور وہ اس محبّت کے ہاتھوں خوار تھی جو اسے احسن شاہ بخاری سے تھی 
شاید اپنی ماں سے بھی زیادہ 
کوئی بھرپور مرد جو اسے محبّت کے ساتھ ساتھ تحفظ کا احساس بھی دیتا ہو، ایسا شخص اس کے لیے صرف اس کا باپ تھا 

اور یہی محبّت تھی جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے ان کا بے حد  انتظار کیا تھا 

دھند سے بوجھل ہوتی زندگی کی کئی شاموں میں 

================================================================

 وہ غصّے سے کپکپا رہی تھی 

اپنے کمرے میں بند  ہو کر اس نے سیل فون پر کوئی نمبر ملایا ، فون مصروف تھا 
اور پھر متعدد بار کی کوشسش کے باوجود اس کی ان تک رسائی نہیں ہو سکی 
اس نے کوفت کے مارے فون بستر  پر پھینکا اور کھڑکی کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی 

وہی منظر تھا جو ہر شام وہ  اسی کھڑکی سے دیکھا کرتی تھی 
مگر آج جیسے سب نظروں سے اوجھل تھا 

وہ سخت خفا تھی 

عمر حیات خان اور یہاں اور اس کی مرضی کے بنا . وہ نہیں جانتی تھی اس کی یہاں آمد کا مقصد کیا تھا اور شاید جاننا بھی نہیں چاہتی تھی ، اس کانفرنس کے بعد  اس سے دوبارہ ملنے کی اسے کوئی امید بھی نہیں تھی 

اس نے اپنے دل میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ محسوس کیا تھا اور اسی لمحے سے اس نے اس کے اور اپنے درمیان فاصلے  کھڑے کر لئے تھے 

قربت کے رشتوں  نے اسے دکھ  اور انتظار کے سوا کچھ نہیں دیا تھا 

اور اس میں مزید دکھ سہنے کا حوصلہ نہیں تھا 
اسی لیے وہ بھاگتی تھی 
محبّت کے رشتوں سے دور 

وہ جانتی تھی وہ گیا نہیں تھا  اس کی گاڑی  کی آواز یہاں تک ضرور آتی 

لالہ  اب تک چاے  لے کر نہیں اے تھے  اور اسے اب کوئی خواہش بھی نہیں تھی 

وہ یونہی غصّے سے بھری بستر پر دراز ہو گئی  اور  اسے معلوم نہ ہو سکا وہ کب سو چکی تھی 

===================================================================

"بےبی  تو سو چکیں  " لالہ  نے مایوسی سے ٹرے  کچن کاونٹر پر واپس رکھتے ہوے کہا 

وہ ابھی تک اسی کرسی پر بیٹھا تھا  اور سوچ رہا تھا کہ  زینیا سے دوبارہ سامنا ہونے پر کیا کہے گا 

لیکن یہاں تو منظر ہی بدل چکا تھا . شاید اب اسے واپس جانا پڑے گا 

سوچتے ہوے وہ اٹھ کھڑا ہوا 

"اچھا لالہ ، میں بھی چلتا ہوں پھر ، اپنی بےبی  کو پیغام  دیجئے گا کہ پھر حاضر ہونگا "

مسکرا کر لالہ  کا حیرت زدہ  چہرہ دیکھتے ہوے  وہ باہر  نکل آیا 

گاڑی میں بیٹھ کر ابھی اس نے ریورس کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا 

"جی انکل ، بچ گیا ہوں، آپ کے خدشے غلط تھے ، پٹائی  ہر گز نہیں ہوئی " وہ زور سے ہنسا 

"وہ مجھے فون کر رہی تھی ،میں نے رسیو نہیں کیا ، مگر تم میری بیٹی کو زیادہ تانگ نہیں کرو گے عمر "

"آپ سے پرومس کیا ہے اسی لیے تانگ کے بغیر واپس جا رہا ہوں ، آپ پریشن نہ ہوں، میں ہنڈل کر سکتا ہوں مادام  کو "

اس نے فون رکھنے کے بعد ایک بار پھر اس ہرے بھرے کاٹیج کو دیکھا  ، جہاں وہ تھی  جسے وہ جانتا تو  ہمیشہ سے تھا 

مگر اب پانا چاہتا تھا 

اور ابھی تو یہ ابتدا تھی 

=======================================================

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)