دھند 17
ایک اور دن گزرا، یوں جیسے کہ گزر کے ہی نہ دے رہا ہو
وہ زیبی گل کی طرف سے پریشا ن تھی ، اس کی طبعیت نہیں سنبھال رہی تھی یر ڈاکٹر زینیا شاہ کو اب کوئی حتمی فیصلہ لینا ہی تھا کبھی کبھی ایک ڈاکٹر سے زیادہ بے بس اور کوئی نہیں ہوتا ، وہ اپنی ہر تدبیر کے باوجود مریض کو شفایاب نہیں کر سکتا ، یہیں قسمت کا وجود اپنی اہمیت ثابت کرتا ہے ، یہیں انسان کی بے بسی اورقادر مطلق کی مشیت سامنے آتی ہے
وہ پریشانی کی وجہ سے کوئی کام ٹھیک سے نہیں کر پا رہی تھی ، اس کا ذھن کہیں مرتکز نہیں ہو پا تا تھا
یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کی سوچ کا سر ا کہیں اٹکا رہ جاتا ہے ، پھر آپ جتنا بھی آگے بڑھتے جایئں ، آپ کی ذہنی رو بار بار بھٹک کر اسی اٹکن کی جانب پلٹ جاتی ہے ،
خیال کا رشتہ بڑا مضبوط ہوتا ہے ، کبھی کبھی وہ طبعی رشتوں سے بھی زیادہ گہرا ہو جاتا ہے ، تبھی روح کی بےچینی قرار نہیں لینے دیتی
زینیا شاہ کے خیال کی سوئی بھی کہیں اٹکی ہوئی تھی ، اسی لیے اسے کسی پل قرار نہیں تھا
نہ چاہتے ہوے بھی وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی
اس نے زیبی گل کی کنڈیشن کے بارے میں مشورہ لینے کے لیےاپنی ایک سینئر کو فون کیا، اسے کسی بھی وقت آپریشن تھیٹر لے جایا جا سکتا تھا ، اورزینیا شاہ کو اپنے سے سینئر ڈاکٹر کی ضرورت پر سکتی تھی
----------------------------------------------------------------------------------------------------
رات سوتے جاگتے گزری تھی
نہ ٹھیک سے سویا گیا نہ ہی آرام ہو سکا بلکہ اس ادھ ادھوری نیند نے سر میں شدید درد کر دیا تھا
ابھی صبح کی نیلگوں روشنی بھی نیند سے پوری طرح بیدار نہیں ہوئی تھی ، وہ بھی زینیا کی طرح آنکھیں مل رہی تھی
اس نے کچن میں آ کر سبز چاے بنائی اور ٹیریس پر آ کر نیچے وادی میں اترتی پگڈنڈی کو دیکھنے لگی
ٹھنڈ معمول سے زیادہ تھی ، اس نے ایک جھرجھری سی لی
صبح کتنی خالص ہوتی ہے، وہ چھپتی نہیں پھرتی ، روشن اور اجلی ہو کر سامنے آ جاتی ہے
وہ بھی ایسی ہی تھی ، اجلی اور شفاف ، اسے دو غلا پن پسند نہیں تھا ، اسے خالص ہونا اچھا لگتا تھا ، چاہے وہ انسانی معاملات ہوں یا جذبے
چاے ختم ہوتے ہی اس نے جوگرز پہنے، فون لیا اور واک کے لیے نکل گئی
وہی روز والا راستہ تھا ، اونچائی پر جاتی پگڈنڈی کے دونوں اطراف مضبوطی سے جمے طویل درخت بھی ووہی تھے جو اب اس کے دوست بن گئے تھے
بادل البتہ روز نۓ ہوتے ، مسکرا کر اسے دیکھتے اور آگے بڑھ جاتے
اس نے آج پھر سرخ سویٹر اور نیلی جینز پہنی ہوئی تھی ، بالوں کی اونچی سی پونی اس کے بھاگتے قدموں کے ساتھ بل کھاتی تھی
آج اس کی رفتار میں وہ تیزی نہیں تھی ، رات کی ادھوری نیند اور سر کے درد نے ویسے ہی تھکایا ہوا تھا
اسے اپنی الجھن کی وجہ بھی معلوم تھی اور یہ بھی علم تھا کہ وہ اپنی الجھن کو تسلیم کرنے سے بھی مفر کر رہی تھی
وہ عمر حیات کا انتظار کر رہی تھی ، دو دن گزر گئے تھے وہ واپس نہیں آیا تھا ، اس کی امید دم توڑتی جا رہی تھی
پتا نہیں وہ کیا کہنے آیا تھا ، مجھے سن تو لینا چاہیے تھا
سو بار اب تک وہ خود کو کوس چکی تھی
کبھی پھر سے آس ہوتی کہ شاید وہ آج آ جاتے
اور کبھی مایوسی اسے اداس کرنے لگتی
"تو پھر وہ ہمیں ملتے ہی کیوں ہیں، جنہیں واپس نہیں آنا ہوتا ؟"
سر جھکا کر چلتے ہوے صرف یہ ایک سوچ اس کی ساتھی تھی
--------------------------------------------------------------------------
Comments
Post a Comment