دھند 14

 ہوٹل  سے  کاٹیج  تک کا راستہ  طویل تھا   لیکن  اس کی ذہنی گمشدگی  نے  اسے اس طوالت کا احساس  نہیں ہونے  دیا 

گھر کے قریب  ہوتے ہوتے وہ ہانپ رہی تھی 

باؤنڈری  وال  کے ساتھ  نیلے رنگ کی پراڈو کھڑی تھی ، ایک لمحے کو وہ ٹھٹھک گئی 
وہ اس گاڑی  کونہیں پہچانتی تھی . کیا کوئی اسے ڈھونڈتا ہوا اس کی پناہ گاہ تک چلا آیا تھا؟

اب یہاں سے بھاگ کر وہ کہاں جاے ؟
ایک لمحے کو اس کی سانس تھام سی گئی تھی . اس کی چھٹی حس اسے کوئی  اشارہ دے رہی تھی 
اندر داخل ہوئی تو حسب معمول خاموشی تھی 
لاؤنج میں کسی کی آمد کے کوئی آثار نہیں تھے 
وہ پرسکون ہو گئی 

یقیناً آس  پاس کے کسی کاٹیج کا کوئی مہمان ہوگا جس نے غلطی سے گاڑی  اس کے گھر کے باہر کھڑی کر دی تھی 
شال   اور بیگ جیسے اس نے صوفے پر پھینکے  تھے  اور لالہ  کو پکارتی کچن کی جانب بڑھی 

ارادہ تو اس کا چا ے  پینے کا تھا مگر یہاں تو منظر ہی بدلہ ہوا تھا 

اندر کچن کاؤنٹر پر چا ے کی لوازمات کی ٹرے سجاتے ہوے لالہ  کی دوسری جانب اونچی سی کچن چیئر پر وہ جو کوئی بھی تھا اجنبی نہیں تھا  اور یہی  لمحہ اسے ساکت کر دینے کے لیے کافی تھا

تو اس کا پہلا خیال ہی درست تھا ، وہ اسے ڈھونڈتے ہوے یہاں تک چلا آیا تھا 

زینیا شاہ دروازے میں کھڑی رہ گئی تھی، 

عمر حیات اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا 

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" اس نے خاصے اکھڑ لہجے میں دریافت کیا "

" ایک دو ضروری پیغام  دینے تھے " وہ چند لمحے کو گربرایا "

"میری اجازت کے بغیر آپ میرے  گھر میں کیسے آ سکتے ہیں؟ "|

" اجازت  لے کر ہی  آیا ہوں "  اطمینان سے اس نے  جواب دیا "

کس  نے بتایا آپ کو میری یہاں موجودگی کا؟ اور جس نے بھی بتایا اس نے یہ کیوں نہیں بتایا  کہ میں کسی سے نہیں ملتی "
وہ تلخی سے بولی

" بتایا تھا ، میں نے اس کے باوجود  یہاں انے کا رسک لیا " وہ سینے پر ہاتھ بندہ کر کھڑا تھا . اس کے  لہجے  میں کوئی ارادہ تھا جس سے زینیا شاہ کو خطرے کی بو  آ رہی تھی


"آپ براہے مہربانی یہاں سے رخصت جایں ، مجھے آپ سے  مزید کوئی بات نہیں کرنی"

"زینیا  بے بی " لالہ  نے کچھ بولنا  چاہا تھا جب اس نے ان کی بات کاٹ دی "

"لالہ آپ سے میں بعد میں بات کروں گی   ،میری اجازت کے بغیر یہ حضرت گھر میں کیسے اے ،اوپر  سے آپ ان کی خاطر مدارات بھی کر   رہے ہیں؟ "

وہ شدید غصّے میں تھی . اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عمر حیات خان کو اٹھا کر باہر پھینک  دے

"بے بی ، یہ تو شاہ جی کے مہمان ہیں " لالہ بس اتنا ہی کہ سکے. وہ جانتے تھے کہ اس کا غصّہ اب اتنے آرام سے ٹھنڈا نہیں ہوگا

" شاہ جی کہ مہمان ان کے گھر جایں ، میں یہاں کسی کو بھی برداشت نہیں کر سکتی ، میں کمرے میں جا رہی ہوں مجھے |چاے وہی ںپنہچا  دیں ، اور شاہ جی کے مہمان سے کہ دیں کہ یہاں سے رخصت ہوں ، "
وہ نخوت سے ناک چڑھا کر بولتی ہوئی پلٹی اور اپنے کمرے کی جانب چل دی

عمر حیات خان کو اس عزت افزائی پر ہنسی انے لگی

اسے اندازہ تھا کہ کچھ ایسا ہی شاندار استقبال ہوگا اس کا یہاں ، غنیمت ہی تھا کہ زینیا شاہ نے جوتا اتار کر نہیں دےمارا تھا

لالہ انہیں یوں مسکراتے ہوے دیکھ کر سخت حیرت زدہ تھے ، اس قدر بدتمیزی کے بعد تو ان کو ناراض ہو کر یہاں سے چلے جانا چائیے تھا .
مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ کتنی محنت کے بعد عمر حیات  نے خود کو اس محاذ کے لیے تییار  کیا تھا  پیچھے ہٹ جانے     والوں میں سے وہ تھا نہیں . انکل احسن شاہ بخاری  سے مشورے کے بعد ہی  ہی اس نے یہ فیصلہ لیا تھا 

وہ لوگ جو  عزیز ہوں ان کو جانتے بجھتے بھڑکتی آگ میں سلگتے  ہوے کیسے  چھوڑا   جا سکتا ہے  

زینیا شاہ اس کے لیے ایک نام تھا جس کے بارے میں اس نے اتنا ذکر سنا تھا کہ کبھی ملاقات نہ ہونے کے با وجود وہ اس کی  پوری کہانی سے واقف تھا 

مگر اس کانفرنس میں ملاقات کے بعد وہ صرف ایک نام نہیں رہا تھا ، وہ اس کے لیے  بہت اہم   ہو چکی تھی 
اور  اب اس کے قریب ہونے کے لیے اسے یہ رسک لینا پڑ رہا تھا 

وہ احسن شاہ بخاری نہیں تھا جس نے اپنی محبّت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے تنہا چھوڑر دیا تھا 

وہ عمر حیات خان تھا جو اسے اپنے جذبوں  کا یقین دلا کر  زندگی کی طرف واپس لانا چاہتا تھا 

زینیا شاہ کی بدتمیزی   بھی اسے بری نہیں محسوس ہوئی ، کیوں کہ وہ اپنی تھی ، بہت اپنی .

=====================================================

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)