دھند 16

شام گہری  ہو رہی تھی 
وہ دھند میں ڈھکے جنگل میں اپنا واپسی کا رستہ بھول چکی تھی 
بھٹک رہی تھی 
جیسے کوئی بے چین روح 

اندھیرا پھیل  رہا تھا اور وہ خوف زدہ تھی 
بے آواز سی صدا میں جیسے اس نے  مدد کے لیے کسی کو  پکارا تھا
پتوں کی چڑ چڑ آہٹ پر اس کی سانس تھم  گئی 
کوئی پاس  ہی تھا 
کوئی اس کا پیچھا کر رہا تھا 
دھند میں  ڈھکے ہوے  جنگل کی اس گہری  ہوتی شام میں 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------

کہیں کوئی آواز تھی 
پتوں کی چڑ چرا ہٹ؟
نہیں یہ تو کوئی اور ہی آواز تھی 

اس کی  آنکھ کھلی تو وہ ایک ادھورے خواب سے جاگی تھی 
ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے 
اس کا دل سہما ہوا تھا 
اور وہ آواز اس کے سیل فون سے آ رہی تھی 

اس نے بات کی . وہ فرزانہ تھی ہسپتال سے 

شادی خان اپنی بیوی زیب گل کو ہسپتال سے زبردستی گھر لے کر جا رہا تھا 

اس نے فرزانہ کو  ہداییت کی کہ وہ زیب گل کو ہسپتال میں روکے رکھے وہ پہنچ رہی ہی 

لالہ کو گاڑی نکلنے کی ہدایت کرتے ہوے اس نے اپنا صوفے پر رکھا ہوا بیگ اور شال اٹھائی اور  باہر کی جانب بھاگی 

وہ ایک ڈاکٹر تھی اس اس  کی حصّیات ایک عام  آدمی کے مقابلے میں ہنگامی صورت حال میں زیادہ تیزی سے کام کرتی تھیں 

 وہ اس دیوار کو دیکھ رہی تھی جہاں چند گھنٹوں پہلے وہ نیلی پراڈو کھڑی تھی 

تو وہ چلا گیا تھا 

ویسے بھی جیسا رویہ اس نے اس کے ساتھ روا رکھا تھا اس کے بعد یہی ہونا تھا 

وہ کس لیے اتنی عزت افزائی کے باوجود وہاں ٹھہرا رہتا 

کوئی محبّت تو تھی نہیں 

وہ  گاڑی میں بیٹھتے ہوے اسے ہی سوچ رہی تھی   
ہسپتال پہنچتے ہی اس نے گائنی وارد کی جانب دوڑ لگائی 

شادی خان  زبردستی زیبی گل کو لے جانے کی کوشش کر رہا تھا اور فرزانہ اسےروک  رہی تھی 
وارڈ  میں ایک ہنگامہ بپا تھا 

وہ پہنچی تو کچھ لمحوں کے لیے وہ دونوں خاموش سے ہو  گئے 

"یہ کیا ہو رہا ہے "؟، اس نے  تحکمانہ لہجے میں  پوچھا "

"میری بیوی کو فارغ کرو ڈاکٹر یہ میرے ساتھ گھرجاتے  گی"

 " ٹھیک ہے شادی خان میں چھٹی  دے دوں  گی، آپ پہلے میرے ساتھ آ  یں "

وہ جانے کے لیے رضامند نہیں تھا  لیکن  اس ڈاکٹرنی کا اپنا ایک رعب  تھا ، وہ نہ چاہتے ہوے بھی اس کے ساتھ چل دیا 

وہ اسے اپنے آفس میں لے آئی 

بیٹھو شادی خان 

وہ بیٹھ گیا 

"کیوں  لے جانا چاہتے ہو زیبی گل کو ؟"

ہم اپنی عورت کو یوں ہسپتال میں نہیں چھوڑتے ڈاکٹر ، اس کا علاج گھر  میں ہو جاتے  گا "

"اگر علاج کروایا ہوتا تو کیا یہ اس حال کو پہنچتی؟"

"وہ ہمارا بیوی ہے ، ہم علاج کرے نہ کرے ، یہ آپ کا  مسلہ  نہیں ہے، آپ بس اس کو فارغ کرو "

"تم جانتے ہو اس وقت اسے یہاں سے لے جانے کا مطلب ہے  کہ اس کی جان بھی جا سکتی ہے "

" یہ تمہارا مسلہ  نہیں ہی ڈاکٹرنی ،  اس کو فریسغ کرو ورنہ میں ویسے بھی اسے لے جاؤں  گا"

وہ غصّے سے کہتا ہوا کھڑا ہو گیا 

"میں تمہارے بچے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہوں شادی خان ، اگر وہ گھر چلی   گئی  تو یہ ممکن نہیں ہوگا  اور تمہاری بیوی کی زندگی بھی خطرے میں  رہے گی "

زینیا نے ایک آخری نفسیاتی حربہ استمال کرنے کی کوشش کی، جو کام کر گیا 

"کیا ہمارا بچہ  بچ سکتا ہے ؟" 

"میں نی کہا نہ ک کوشش کر رہی ہوں ، ورنہ آپ لوگوں  نے تو ماں اور بچے دونوں کو مار دینے میں کوئی کسر نہیں   چھوڑی ہے/"

وہ اور بھی بہت کچھ  کہنا چہ رہی تھی لیکن اس وقت شادی خان کے ساتھ معاملہ طے  کرنے کے لیے اسے بڑا  ضبط کرنا پر رہا تھا 

"کتنا دن اور روکو گے آپ اس کو "

"تین دن " 

زینیا نے گو یہ کیہ  کر ایک رسک لیا تھا لیکن اس کے پاس اور کوئی حل بھی نہیں تھا 

"ٹھیک ہے  ڈاکٹر ، میں آپ پر بھروسہ کر کے اس کو یہاں چھوڑتا ہوں پر تین دن بعد وہ گھر جاتے گی میرے ساتھ "


"ٹھیک ہے شادی خان، بہت شکریہ"

اس کے دفتر سے نکل جانے کے بعد وہ سر تھام کر  بیٹھ گئی 

اس بار اسے یقین نہیں تھا کہ شادی خان کے بچے کو بچا پاے  گی، اس بار اسے یہ خوف تھا کہ وہ زیبی گل کو کہیں کھو نہ دے 

-----------------------------------------------------------------------------------------------

گھر واپسی پر گاڑی  سے اترتے ہوے وہ پھر اس دیوار کو دیکھ رہی تھی جہاں چند گھنٹوں پہلے اس کی  گاڑی  کھڑی دیکھی تھی 

اب شاید وہ نیلی پراڈو اس گھر کے باہر کبھی نظر نہیں اے گی 

اسے کسی ان دیکھے دکھ نے گھیر  لیا 

اندر آتے ہی وہ صوفے پر گر سی گئی 
کتنا ذہنی طور پرتھکا  دینے والا دن تھا 

جذباتی اور نفسیاتی محاذوں پر خود سے لڑائی کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے 

آج اسے وہ ملا تھا کئی برسوں کے بعد جس  سے ایک خود ساختہ محبّت میں وہ کئی سال مبتلا رہی تھی 

اور پھر آج اسے وہ بھی بھی ملا تھاجس  سے اس کا کوئی ناطہ نہیں تھا مگر جس کے چلے  جانے پر اس کے دل میں کوئی خلش سانس لیتی تھی 

"بے بی  کھانا لا دوں :

لالہ ہمیشہ  کی طرح مستعد تھے 

"بھوک نہیں ہے لالہ " اس سے بولا بھی نہیں جا رہا  تھا 

"کچھ تو کھا لو بیٹا ، صبح  سے کچھ نہیں کھایا "

"وہ ان کے لیے  ، کھانا کھانے  پر تییار  ہو گئی " اچھا میں کچن میں ہی کھا لوں گی "

کچن میں آتے ہوے اسے  احساس ہوا کہ  زیادہ دیر تو نہیں  گزری تھی  جب وہ یہاں موجود تھا 

اسی کچن چیئر  پر بیٹھا  وہ اس کی بدتمیزی کو کتنے آرام سے سہ گیا تھا 

وہ وہیں آ کر بیٹھ گئی 

لالہ حیران سے تھے پر کچھ بولے نہیں 

انہیں یقین ہو گیا تھا کہ بے بی کی طبیت آج ٹھیک نہیں 

کتنا  عرصہ  ہو گیا تھا اسے یہاں  رہتے ہوے 

تنہائی کی قید کاٹتے ہوے 

اب تو جیسے وہ عادی ہو چکی تھی 
اور آج عمر حیات کی چند للمحوں کی مجودگی نے جیسے کچھ تبدیل کر دیا تھا 

وہ اس کی مجودگی کی غیر مجودگی کے باوجود اسے وہاں محسوس کر رہی تھی 

اور اس سے زیادہ حیران کن مرحلہ تو یہ تھا کہ اسے یہ سب بلکل برا نہیں لگ رہا تھا 

--------------------------------------------------------------------------------------------


Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)