دھند 32
ہسپتال کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے وہ تینوں کھوے ہوے سرے ڈھونڈ رہے تھے ، ڈونٹس اس کی ماما کو بہت پسند تھے اور اس وقت داور بصد اصرار انہیں ڈونٹس کھلا رہا تھا ، پھر بھی اسے یہ تکون اچھی نہیں لگ رہی تھی ، جس کی کمی تھی وہ کتنی نزدیک تھی ، اور کتنی دور وہ کوفی لینے کے لیے نزدیکی کاؤنٹر تک گیا تھا، تب اس نے ماما کو کہتے سنا تھا " شاہ ، یہ لڑکا کتنا تہذیب یافتہ ہے ، مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں اسے بہت عرصے سے جانتی ہوں " داور کے کانوں تک ان کی آواز با خوبی پہنچ رہی تھی ، گو کہ وہ ان کی اس بیماری کی سب کیفیات سے واقف تھا مگر پھر بھی درد کی کوئی لہر تھی جس نے اس بار بھی سر اٹھایا تھا ، وہ اس کی ماں تھی اور اسی سے غافل بھی ، کس قدر ظلم تھا Alzheimer's disease ، وہ دل ہی دل میں اس بیماری کو کوسنے لگا سے کی اذیت سے گزرنے والے مریضوں میں ایک نام اس کی ماں کا بھی تھا ، اور میڈیکل سائنس کبھی کبھی جس بے بسی سے گزرتی ہے اس میں اس بیماری کا نام سر فہرست تھا ہسپتال کے اندروں کی طرف واپسی کے سفر میں باتیں کرتے کرتے انہیں احساس نہی ہو سکا تھا ک کتنا وقت بیت چکا ہے رات