دھند 32

ہسپتال کے کیفے ٹیریا میں بیٹھے وہ تینوں کھوے ہوے سرے ڈھونڈ رہے تھے ، ڈونٹس اس کی ماما  کو بہت پسند تھے  اور اس وقت داور بصد اصرار انہیں ڈونٹس کھلا رہا تھا ، پھر بھی اسے یہ  تکون اچھی نہیں لگ رہی تھی ، جس کی کمی تھی وہ کتنی نزدیک تھی ، اور کتنی دور

وہ کوفی لینے کے لیے نزدیکی کاؤنٹر تک گیا تھا، تب اس نے ماما  کو کہتے سنا تھا
" شاہ ، یہ لڑکا کتنا تہذیب یافتہ ہے ، مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میں اسے بہت عرصے سے جانتی ہوں  "

داور  کے کانوں تک ان کی آواز با خوبی پہنچ رہی تھی ، گو کہ وہ ان کی اس بیماری کی سب کیفیات  سے واقف تھا مگر پھر بھی درد کی کوئی لہر تھی جس نے اس بار بھی سر اٹھایا تھا ، وہ اس کی ماں تھی اور اسی سے غافل  بھی ، کس قدر ظلم تھا  Alzheimer's disease  ، وہ دل ہی دل میں اس بیماری کو کوسنے لگا
سے کی اذیت سے  گزرنے والے  مریضوں میں ایک نام اس کی ماں کا بھی تھا ، اور میڈیکل سائنس  کبھی کبھی  جس بے بسی سے گزرتی ہے اس میں اس بیماری کا نام سر فہرست تھا

ہسپتال کے اندروں کی طرف واپسی کے سفر میں باتیں کرتے کرتے انہیں احساس نہی ہو سکا تھا ک کتنا وقت بیت چکا ہے 

رات  کافی سے  زیادہ بیت  چکی تھی  ، وہ اپنے والدین کو انتظار گاہ میں چھوڑ کر آئ  سی یو کی جانب جا رہا تھا جب  اس کے فون پر وہ کال  آئی جس نے اسے کچھ حیران کیا ، وہ  ڈاکٹر عمر کی کال تھی 

"داور  تم کہاں ہو ؟"
"ہسپتال میں ، اور کہاں  ، مگر تم اب تک کیوں جاگ رہے ہو عمر، تمہیں آرام کرنا چاہیے "

"میں سو رہا تھا ، ابھی چند لمحوں پہلے سٹاف اگنس کی کال آئی، زینیا نے کچھ موومنٹ کی  ہے ، وہ تم کو دیکھنے کے لیے وارڈ  تک ہو آئی تم اسے ملے ہی نہیں. تمھیں زینیا  کے پاس ہونا چاہیے داور " 

عمر کے لہجے میں اتنی خفگی تھی کہ داور  کی سماعتوں  سے چھپی نہ رہ سکی 
"اوہ  عمر میں تو صرف کیفے ٹیریا تک گیا تھا ماما  اور ڈیڈ  کو لے کر " کیا اس کا مطلب ہے  کہ وہ ہوش میں آ رہی ہے ؟"

ہاں یہ  ممکن ہے ، پلیز تم اس کے پاس جاؤ ، میں بس آ رہا ہوں " 

"عمر تم آرام کر لو یار ، کوئی ایمرجنسی ہوئی تو پھر آ جانا ، ، تمھیں آرام کی ضرورت ہے  "

تم ایک ڈاکٹر کو نہیں بتا سکتے کہ  اس وقت کیا اہم ہے. پلیز اس کے ساتھ رہو ، اس موقع  پر اس کے پاس رہو، میں پہنچ رہا ہوں "
داور  تیزی سے آئی سی یو کی جانب چل دیا ، سٹاف اگنس  ڈاکٹر عمر  کی ہدایت پر وہیں موجود تھیں 
اس نے غور سے زینیا کی جانب دیکھا، بظاھر اس کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں تھی، وہ ویسے ہی ساکن  لیٹی  ہوو تھی جیسے ایک گھنٹہ پہلے تھی 
اسٹاف اگنس نے آنکھوں سے کوئی امید افزا اشارہ دیا، شاید اس نے داور  کے چہرے پر چھانے  والی نہ امیدی دیکھ لی تھی 
انہوں نے  داور  کے نزدیک آ کر بہت دھیمے سے لہجے میں اسے  اچھے وقت کی امید دلائی ، اس نے ہولے سے اثبات  میں سر ہلا دیا لیکن صرف اگلے ہی لمحے نے اس کی توجہ  کھینچ لی ، جیسے  کسی مریض نے کوئی سسکی لی ہو ، وہ مڑ  کر ساتھ والے مریض کو دیکھنے لگا جو کافی فاصلے پر موجود تھا ،  اور اس کے بلکل اگلے ہی لمحے میں اسے احساس ہوا کہ یہ آواز تو زینیا کی جانب سے آئی تھی، تیزی سے وہ دونوں اس کی جانب بڑھے 

"ہنی  کیا تم مجھے سن رہی ہو؟" وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوے کہنے لگا 

"پھر جیسے  زینیا کے لبوں سے ایک اور سسکی بلند ہوئی "  داور  نے سٹاف اگنس کی جانب دیکھا 

"اسٹاف پلیز چیک کریں یہ سانس تو ٹھیک سے لے رہی ہیں نان "

اسٹاف اگنس نے اس کو تسلی دی، کہ  سب ٹھیک ہے، اور یہ کہ داور  کو اسے پھر سے پکارنا  چاہیے 
وہ ہنی سے یونہی بات کرنے لگا جیسے بچپن سے کرتا آیا تھا ، انگریزی میں وہ اسے بلاٹی ہوے کہنے لگا 

"ہنی ، مجھے پتا ہے  تم ٹھیک ہو، اور صرف سو رہی ہو، اورکتنا  سوو گی یار ، اب جاگ جاؤ  دیکھو میں کتنے عرصے بعد صرف تم سے ملنے کے لیے یہاں آیا ہوں |

اسے شک سا ہوا تھا شاید، ہنی شاہ کی آنکھیں پھر پھرآ  ئیں تھیں 
ہنی، اپنے بھائی  سے باتیں نہیں کرو گی، کتنے دن ہو گئے یار ہم نے گوسسپس نہیں کیں ، اب جاگ بھی جو نان "

مگر دوسری طرف پھر سے خاموشی تھی 

وہ ہمّت ہارنے  لگا 

اسٹاف اگنس اس کا کندھا تھپتھپا کر خاموشی سے کسی اور مریض کی جانب بڑھ گئیں ، وہ اب وہاں اکیلا تھا ، وہ تھی، پر نہیں تھی 
جانے کتنا سمے بیتا ، وہ وہیں بیڈ  کے کنارے پر ٹکا  بیٹھا تھا م جب کسی نے پیچھے سے آ کر  اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا 

وہ عمر تھا 

داور  نے پریشانی سے اس کی جانب دیکھا 
عمر اتنی دیر میں زینیا کے جسم سے لگی مشینوں کی ریڈ نگس پڑھنے لگا 
اسے نے دھیرے سے اس کے خوب صورت  بالوں والے سر پر ہاتھ رکھا ، پھر اس کی انگلیوں نے اس کی پیشانی کو چھوا 
اس کی بھنووں کے درمیان میں پہنچ کر اس کی انگلیوں نے وہاں دباؤ بڑھایا 
اسی لمحے  زینیا کے لبوں سے ایک سسکی برآمد ہوئی اور اس کی پلکوں میں کوئی جنبش ہوئی 
عمر کی آنکھوں میں کوئی چمک بیدار ہوئی، اس نے داور  کو آگے آ کر اسے پکارنے کا اشارہ کیا 
اور وہ اسے بے اختیار پکارتا چلا گیا 

اور جیسے ہنی شاہ کی روح نےاپنا  پکارا جانا سن لیا تھا ، اک بے یقینی کی کیفیت میں آنکھیں کھول کر اس نے ہوش کی اس دنیا میں قدم رکھا تھا ، اور  سب سے پہلے اس نے اپنے سامنے کھڑے  داور  کو دیکھا تھا ، جو اس کا ہاتھ تھامے  اسی کی جانب دیکھ رہا تھا 

"ہنی دیکھو میں تمہارے لیے لوٹ آیا ہوں اور تم کب سے سوئی   پڑی  ہو، اٹھ جاؤ  یار 

اور  ہنی شاہ کی سسکیاں کچھ اور بلند ہونے  لگیں، وہ رو رہی تھی ، اسے جسمانی درد نہیں تھا، اس کی روح زخمی تھی ، اور داور  کو دیکھ کر  اسے کیا کچھ نہیں یاد آیا تھا 

اور داور  اسے روتا دیکھ کر پریشن ہو اٹھا تھا ، اس نے عمر کی جانب دیکھا ، مگر اس کے چہرے پر تو طمانیت پھیلی ہوئی تھی ، اس کی امید بر آئ  تھی ، زینیا شاہ ہوش میں آ چکی تھی 

چند لمحے روتے ہوے گزرنے کے بعد  زینیا نے دوسری جانب دیکھا تھا ، وہاں اس کا مسیحا کھڑا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسو مزید تیزی سے بہنے لگے تھے 

==============================





Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)