دھند 30

اس کے آفس میں کمپیوٹر کی بڑی  سکرین پر جونز ہوپکنز ہسپتال کی مورننگ میٹنگ کا منظر وڈیو کونفرنسنگ کے ذریے  دکھائی دے رہا تھا   جونز ہوپکنز ، جو بالٹی مور ، امریکا کی ایک مشہور یونیورسٹی ہے، اور جس کے ساتھ ڈاکٹر عمر حیات وزیٹنگ فیکلٹی کے طور پر کافی عرصے سے منسلک بھی تھا. کی اس  با قا عد گی سے ہونے والی  اس میٹنگ میں نیورولوجی  کے وارڈ  سے متعلق  سارے ڈاکٹر حضرات  اکٹھے ہوتے تھے ، عمر حیات کے تجویز پر آج وہاں ڈاکٹر زینیا شاہ کا کیس زیر بحث تھا. وڈیو کونفرنسنگ کے ذریے  عمر  اس میٹنگ  میں شامل ہوے تھے، پہلے انہوں نے کیس پرزنتشن  دی اور اس کے بعد سینئراور  ماہر نیورولاجسٹ اپنے سے کم تجربہ کار ڈاکٹروں سے اس بےہوشی  کی ممکنہ  وجوہات اور  اس کے ہونے والے علاج کے   اقدامات کے بارےمیں استفسار کرنے لگے ، گو کہ یہ  مورننگ میٹنگز کا معمول تھا اور عمر حیات اکثر ان میٹنگز میں پاکستان میں ہوتے ہوے بھی شرکت کرتا رہتا تھا مگر اس وقت اسے صرف اس بات میں دلچسپی تھی  کہ یہ ماہر ڈاکٹر حضرا ت مل جل کر کسی ایسے نتیجے پر پہنچ سکیں جہاں سے زینیا کے ہوش میں انے کی کوئی سبیل بن سکے 

"اس کے آفس کے با ہر "پریشان نہ کیا جاے "   کا بورڈ چسپاں تھا ، اور اس کا اسٹاف جانتا تھا کہ کسی شدید ایمرجنسی کے علاوہ اس وقت ڈاکٹر عمر کو بلایا نہیں جا سکتا .

اس کا  ذہن  جیسے کہر  آلودہ تھا. گویا کسی گہری دھند میں لپٹا ہوا کوئی حسین منظر ، جو سامنے ہوتے ہوے بھی آنکھوں سے اوجھل ہو رہا ہو. ویسے ہی تشخیص کا کوئی سرا  تھا جو ڈاکٹر عمر حیات کے ہاتھ نہیں آ رہا  تھا 

میٹنگ کے اختتام پر وہ لوگ جن نتائج پر پنہچے تھے ان میں سے ایک انتظار بھی تھا . اور یہی سب سے مشکل مرحلہ تھا ، کیوں کہ ایک طرف زینیا کی فیملی تھی جنہیں سنبھا لنا تھا اور دوسری جانب اپنے اندر جاری جذباتی جنگ تھی جس نے ایک بلکل نیا محاذ کھولا ہوا تھا 

وہ سر تھامے بیٹھے ہوے سوچوں میں گم  تھا جب سیل فون  کی ویبرشن محسوس ہوئی. کوئی اور ہوتا تو شاید وہ پرواہ نہ کرتے مگر  وہ داور  تھا جو بڑی  افرا تفری میں بالٹی مور سے نکلا تھا . وہ اسلام آباد ائرپورٹ  سے مخاطب تھا اور  اپنی آمد کی خبر دینے اور زینیا کی طبعیت  کے بارے میں استفسار کر رہا تھا . گو کہ عمر حیات کے پاس کوئی اچھی خبر تو نہیں تھا مگر امید تو تھی اور اس نے داور تک وہی امید پنہچا دی 

ہسپتال  پہنے میں اسے زیادہ سمے نہیں لگا تھا ، زینیا کو بےہوشی  سے جگانے کے لیے اس نے چند ناکام کوششیں کیں  مگر پھر دل گرفتہ سا ہو کر پیچھے ہو کر خاموشی سے اسے تکنے لگا. کئی  سالوں کا فاصلہ تھا ان دونوں بہن بھائی  کے درمیاں ، جب سے  اس نے داور  کے سمجھانے  کے با وجود الی زبیری کی سنگت نہیں چھوڑی  تھی وہ اس سے بہت باقائدگی سے ناراض ہو چکا تھا ، دونوں کے درمیان ذہنی فاصلے پھر بھی نہیں پیدا ہو پاتے  تھے ، وہ اب بھی اسے اتنی ہی عزیز تھی جتنا  اس رشتے کا تقاضا تھا . افسوس تو اسے اپنے رویے پر ہوتا رہا  کہ اتنے لمبے عرصے کے لیے اس نے اس سے رابطہ منقطع رکھا  اور اب جب  وہ اس چپ کی کیفیت میں نہ جانے کتنے عرصے کے لیے گمشدہ ہو چکی، اب وہ اس سے  کتنی باتیں کرنا چہ رہا تھا 

اپنی آنا  کے زعم  میں ہم کبھی کبھی بہت سا قیمتی سمے  گنوا دیتے ہیں 

عمر حیات کے دفتر میں بیٹھے وہ یہی سوچ رہا تھا جب عمر اندر داخل ہوا . دونوں ایک ہی کیفیت سے گزر رہے تھے، نہ دونوں دو دن سے سوے تھے نہ ہی اپنا  لباس ہی تبدیل کر پے تھے . داور  کے لیے عمر کو یوں اس حال میں دیکھنا کچھ اچھنبے  کی کیفیت میں مبتلا کر گیا ، کیوں کہ عمر حیات کو اس نے ہر حالت میں بڑا مضبوط پایا تھا ، 

"عمر تم کب سے ہسپتال میں ہو؟"  گھر بھی گئے یا نہیں؟

"نہیں کچھ حالات ہی ایسے ہو گئے تھے ، پھر وہاں جونز ہوپکنز میں میٹنگ بھی ارینج کروانی تھی ، جو گھر بیٹھے ہو نہیں سکتا تھا "
"اب چلے  جاؤ ، میں ہوں ب یہاں:

"نہیں میرا خیال ہی تم گھر جا کر انکل آنٹی  سے ملو، میں ابھی یہیں ہوں" کوفی کے گھونٹ بھرتے ہوے اس نے کہا 

"نہیں، ڈیڈ  سے میں یہیں مل لوں گا،  وہ یہیں آ رہے ہیں ، تم نکلو اب، وہ تمہارے لیے بھی بہت پریشان  ہو رہے ہیں "

اور پھر داور  نے زبردستی لالہ  کے ساتھ ڈاکٹر عمر  حیات کو اس کے گھر روانہ کیا  اور زینیا کو دیکھنے ای سی یو کی جانب چل دیا 
===========================================

Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)