دھند 28
"سر ایک بات کہوں؟" . وہ نرسنگ سٹیشن پر کھڑا زینیا کے دوبارہ کے جانے والے چیک اپ کے نوٹس لکھ رہا تھا جب اس نے سٹاف اگنس کو کہتے سنا
"جی سٹاف کہیے" اس نے تھکے لہجے میں جواب دیا "سر ، آپ کچھ آرام کر لیں ، میں آپ کی پشینٹ کو آبزرو کر لوں گی تب تک . چار تو بج چکے ہیں ، صبح پھر مورننگ میٹنگ اور راؤنڈ بھی لینا ہوگا آپ کو"
"اسٹاف بہت شکریہ آپ کا ، مگر یہ آپ بھی جانتی ہیں کہ ایک ڈاکٹر کو اسے سے بھی زیادہ مشکل ڈیو ٹیز کرنا پرتی ہیں ا. میں اس سب کا عادی ہوں ، آپ پریشان نہ ہوں. "
پھر کچھ ٹھہر کر وہ دوبارہ گویا ہوا
"ایک مہربانی اور کر دیں ، میرے لیے ایک کافی منگوا دیں پلیز."
"سر کہنا تو نہیں چاہیے مگر آپ خود سمجھتے ہیں بغیر کچھ کھا ے یہ آپ کی پانچویں کافی ہے. آپ کی گیسٹرک لائننگ کو
نقصان پہنچ رہا ہے "
وہ دھیمے سے مسکرا دیا " یہ سٹاف اگنس ہی تھیں جو ڈاکٹر عمر سے اس حد تک ذاتی گفتگو کر سکتی تھیں "
"میں بیڈ ٢١٥ کو دیکھ لوں، آپ بلیک کافی بھجوا دیں پلیز."
سٹاف اگنس انہیں وارڈ کی طرف جاتا دیکھتی رہیں
==========================================================
عجیب بے کلی سی تھی. یہی ہسپتال تھا جس سے وہ کئی برسوں سے منسلک تھا، یہی کوریڈور ، یہی دیواریں، یہی وارڈز ، یہی آئ سی یو تھا جہاں وہ دن کا بیشتر وقت مریضوں، نرسنگ سٹاف اور ساتھی ڈاکٹرز کے ساتھ گزارتا تھا . آج یہی جگہ اجنبی لگ رہی تھی، آج اسے جتنی بے بسی محسوس ہو رہی تھی، پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی.
ٹھیک ہی کہتے ہیں لوگ ، دوسروں کا علاج آسان ہوتا ہے ، اپنوں کا علاج کرنا وہ بھی کسی بہت قریبی شخص کا ، ایک critical thinking ڈاکٹر کے لیے بہت مشکل ہے ، کیوں کہ جب جذباتیت شامل ہو جاتے سوچوں میں تو
پس پشت چلی جاتی ہے . آپ ٹھیک سے بلکل وہ فیصل نہیں کر پا تے جو وقت کا تقاضا ہوتا ہے .
وہ بھی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اگلا قدم کیا ہونا چاہیے .
کیوں کہ وہ بھی کسی اپنے کا علاج کرتے ہوے جذباتیت کا شکار تھا
"اپنا" وہ کب اپنی تھی؟ یا کب اپنی بن گئی تھی؟، اور کیا واقعی اس سے کوئی قریبی رشتہ تھا؟ کوئی جذباتی تعلّق تھا؟
lost love وہ تو اب تک اپنے
کا سوگ منا رہی تھی . خود پر طاری ہوتے غصّے کو روکنے کے لیے اس نے مٹھیاں بھینچی تھیں
کون ہے یہ علی زبیری ؟ " اسے شدید بے چینی ہوئی . گوگل نے اچھے دوست کی طرح بر وقت مدد کی اور اب وہ اسے دیکھ بھی رہا تھا اور اس کے باری میں معلومات بھی حاصل کر رہا تھا
اور سب کچھ جان لینے کے بعد اسے صرف اس احساس سے الجھن ہو رہی تھی کہ زینیا شاہ ، ڈاکٹر زینیا شاہ اس انسان سے محبّت کر سکتی تھی؟
=============================================================
سٹاف اگنس اپنی ڈیو ٹی سے فارغ ہونے سے پہلے مورننگ فالو اپ کر رہی تھیں. آی سی یو میں موجود ایک عمر رسیدہ مریض کی چادر درست کرتے ہوے انہیں کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا . انہوں نے مڑ کر دیکھا .کچھ بھی نہیں تھا ، مگر انہیں کوئی شک سا ہو رہا تھا . . اس مریض سے فارغ ہونے کے بعد وہ خاص طور پر ڈاکٹر عمر کی مریضہ خاص کی جانب آئیں . ان کا شک غلط نہیں تھا ، ڈاکٹر زینیا کے جسم میں ہلکی سی حرکت ہوئی تھی، اس نے اپنا کنولا لگا ہاتھ اٹھا کر پھر واپس نیچے رکھا تھا . ان کی ماہر نظروں نے فورا یہ جانچنے کی کوشش کی کہ کنولا لگے ہاتھ میں سوجن تو نہی ہے ، مگر اس سے بھی پہلے ان کا ذھن انہیں ڈاکٹر عمر کو وہاں بلانے کی ہدایت دے رہا تھا ، انہوں نے اگلے ہی لمحے میں ڈاکٹر عمر کو فون کر کے آئ سی یو آنے کو کہا اور دوسرے لمحے زینیا شاہ کو نام لے کر پکارا.. وہاں کوئی حرکت نہیں تھی
چند ثانیوں میں ڈاکٹر عمر وہاں موجود تھے
سٹاف اگنس نے ساری روداد کہ سنائی ، اور ٹھیک اس لمحے انہوں نے ڈاکٹر عمر کی آنکھوں کو روشن ہوتا دیکھا تھا
پھر وہ جھک کر اس کے کنولا لگے ہاتھ کا موا عنہ کرنے لگیں جب کہ عمر نےاس کا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام کر اسے پکارا
"زینیا" تم مجھے سن رہی ہو نہ؟
زینیا ، مجھے پتا ہے تم جاگ رہی ہو ، ایک بار آنکھیں کھول کر دیکھو "
کوئی حرکت نہیں تھی، کوئی جواب نہیں تھا
انہوں نے پالت کر اس کی دھڑکن اور سانس سے جڑے آلات کو دیکھا، سب کچھ بلکل مناسب تھا ، صرف اس کا ذہن کہیں کھویا ہوا تھا \عمر نے اس کے ہاتھ پر کچھ اور دباؤ بڑھایا ، وہ درد دے جانے کے جواب میں اس کے دماغ کا رسپانس دیکھنا چاہ رہے تھے . مگر ایک بار پھر انہیں مایوسی ہوئی ، وہ اسی خاموشی سے سو رہی تھی
"ہنی " پہلی بار شاید پہلی ہی بار تھی جب انہوں نے اسے اس نام سے پکارا جس نام سے اسے ہمیشہ سے جانتے آے تھے. اپنی فیملی، اور دوستوں کے درمیان وہ اسی نام سے جانی جاتی تھی
سٹاف اگنس کے لیے یہ کسی اچھنبے سے کم نہیں تھا . وہ ڈاکٹر عمر کے اس خوبصورت مریضہ کے ساتھ کسی گہرے
تعلق کے بارے میں اب کسی شک کا شکار نہیں رہی تھیں
====================================================================
Comments
Post a Comment