پگڈنڈی
وہی موڑ ہے نا
دیکھو . جہاں
چپ چاپ درختوں پر
سفر بے نام لکھا تھا
فصیل نا آشنائی تک
جو پگڈنڈی جاتی تھی
وہ پلٹ کر بھی تو آتی تھی
تم نے جب موڑ کا ٹا تھا
زرد پتے لمحوں کے
چپ چاپ درختوں سے
ٹوٹ کر آ گرے تھے
فصیل نا آشنائی کے اسطرف
کبھی جھانکو
سفر کی شام ابھی ڈھلی نہیں
سلگ رہی ہے
کہ اس کے مچلتے ساے میں
وہ پگڈنڈی یوں ہی
پلٹ کر مجھ تک آتی ہے
Comments
Post a Comment