دھند 31
ہسپتال سے گھر تک کے فاصلے میں اسے اتنا وقت مل گیا کہ وہ اپنے سیل فون پر موجود غیر جوابدہ کال کا جواب دے سکے
امی اور بابا کو فون پر زینیا کی تازہ ترین صورت حال سے مطلع کرنے کی بعد وہ انہیں اپنے گھر جانے کے بارے میں بتانے لگا، اسے چند گھنٹوں کی نیند کی شدید ضرورت تھی تا کہ وہ جلد از جلد تازہ دم ہو سکے ، ویسے بھی اس کے والدین خود زینیا شاہ کی عیادت کے لیے ہسپتال جانے والے تھے
شیرل کی کافی ساری فون کالز کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا ، وہ عمو ما اتنے فون کالز نہیں کیا کرتی تھی،، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ عمر کو یوں تنگ کیے جانا بلکل نہ پسند ہے ، مگر شاید اس بار صورت حال مختلف تھی، اور یہ اس کی ڈھیر سری کالز دیکھ کر ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا ، وہ اس شہر میں اس کی ذاتی مہمان ہی نہیں اس کی سب سے پرانی اور عزیز دوست بھی تھی ، یہ تو حالات کچھ ایسا رخ اختیار کر گئے تھے کہ وہ اسے وقت نہیں دے پا رہا تھا
وہ بہت سنجیدگی سے عمر کے بارے میں فکرمند تھی جب اسے یہ علم ہوا کے وہ دو دن بعد ابھی گھر جا رہا تھا
اور خاص طور ور یہ جان کر ک وہ ان اڑتالیس گھنٹوں میں بلکل نہیں سویا تھا
"اور کھانا؟ کھانا کب کھایا تم نے؟" وہ پھر سے پرانی والی شیرل بن چکی تھی
" مجھے بھوک نہیں ہے، میں صرف سونا چاہتا ہوں ، کھانا اٹھ کر کھا لوں گا "
" اور کب بناؤ گے کھانا؟ اتنی ہمّت ہے تم میں\؟"
"میں آرڈر کر دوں گا ، تم فکر نہ کرو "
"اگر تم برا نہ مانو تو ،میں تمہارے گھر آ جا وں ، تم سو لینا تب تک میں کھانا بنا لوں گی "
کوئی اور موقع ہوتا تو عمر کبھی انکار نہ کرتا ، اور ایسا پہلی بار نہیں تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کی گھر پر وقت نہ گزارا ہو، مگر نہ جانے کیوں عمر کو اب تنہائی میں شیرل کے ساتھ کا سوچ کر بھی الجھن ہو رہی تھی اور وہ غلط نہیں کر رہا تھا اگر اپنی تھکاوٹ اور نیند کی کمی کو اس کا ذمہ دار سمجھ رہا تھا
سو اس نے بڑی سہولت سے اسے انکار کر دیا ، مگر کھانا کھا کر سونے کا وعدہ عمر کو کرنا ہی پڑا
===================================
داور نے اپنے والدین کو اکٹھے ہسپتال کے اندر داخل ہوتے دیکھا، اور ایسےلمحے کئی سالوں سے اس کی زندگی میں
نہیں اے تھے ، اس کے باپ نے بھینچ کر اسے سینے سے لگایا اور اس کا ماتھا چوما تو ان کی آنکھوں میں چمکتے آنسو اسے بہت واضح دکھائی دیے ، کتنی بے بسی تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے اپنے آنسو چھپا رہے تھے
اس کی ماں خاموش کھڑی اسے تکتی رہی، شاید اس کی یادداشت میں یہ والا داور اپنا وجود نہیں رکھتا تھا، وہ خود آگے بڑھ کر انہیں پیار کرنے لگا، وہ تو انہیں نہیں بھولا تھا، کیا تھا اگر کسی بیماری نے اس کی ماں کی یادیں بھلا دی تھیں
وہ تینوں مل کر ای سی یو کی جانب بڑھنے لگے چوں کہ وہاں ایک وقت میں ایک ہی فرد کے جانے کی اجازت تھی اس لیے پہلے احسن شاہ بخاری اندر چلے گئے وہ ماں کے ساتھ باہر کھڑا شیشے کی دیوار کے اس پار بے خود سوئی ہنی شاہ کو دیکھتا رہا
کتنے دنوں بعد آج وہ ایک خاندان کے طور پر اکٹھے ہوے تھے مگر یوں کہ وہ جو سب ہی کی عزیز از جان تھی وہی بے خبر تھی ، ایک لمحے کو داور کا جی چاہا کہ اسے جھنجھوڑ کر اٹھا دے اور کہے دیکھو ہم سب یہیں ہیں ،دیکھو ہم سب تم سے اب بھی ویسی ہی محبّت کرتے ہیں ، آؤ ، واپس لوٹ آؤ
جانے والوں کا لوٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا ، مگر صبر اور یقین دو ایسی قوتیں ہیں جو گم شدہ لوگوں کو اپنوں تک واپس لے آتی ہیں
اور داور نے اسی یقین کے ساتھ ای سی یو کی اس مقفل دنیا میں قدم رکھا تھا
=============================
Comments
Post a Comment