تمہاری آنکھوں کی نمی

 تمہاری گیلی آنکھوں کی نمی جب 

میرے گالوں کو تر کرنے لگتی ہے  اور

تمہاری آواز کے گرتے سکے

میرے دل کی دھڑکن کی بے آواز 

صداؤں میں شامل ہو کر

میری کئ بے سمت شاموں کو

جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں 

وہ خواب دکھلاتے ہیں 

جن پر اب میرا کوئ حق ہی نہیں

وہ امید جگاتے ہیں 

جو مایوسی کے گہری کھائ میں 

گر کر پاتال میں گم نام ہو چکی ہے

میری آنکھوں سے ہر خواب نوچا جا چکا ہے

وہاں خالی پن کی  راکھ ہے 

جو آنکھوں کے ہر آنسو کو 

جذب کرکے صحراؤں کے دشت 

بنا چکی ہے

اور اس دشت کی سیا حت میں 

آبلہ پائ کا بے آنت سفر ہے 

جہاں کبھی کبھی 

تمہاری آنکھوں کے کناروں پر

پھیلنے والی نمی

میری خشک آنکھوں سے ہوتی ہوئ

گالوں پر پھیلنے لگتی ہے 

تو لگتا ہے 

زندگی کا سفر 

ابھی باقی ہے 


Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Forbidden