شام شہر یاراں ....1
بعض نام اور چہرے بھولے نہیں جاتے . وقت اور فاصلے یاد رکھنے کا پیمانہ نہی ہوتے. شاید اس لیےبھی کہ
کچھ لوگ ہماری زندگی کا حصّہ بن جاتے ہیں ، پھر انہیں یاد کرنے کے لیے بہانوں کی ضرورت نہیں ہوتی
.
کراچی کے موونپیک ہوٹل کے کمرے میں صبح کا اخبار دیکھتےہوے اسے بے اختیارازمینہ شمس یاد آئی تھی
آج ایک بڑے ادبی میلے کا افتتاحی دن تھا اورازمینہ شمس کسی ادبی میلے میں شریک نہ ہو یہ کچھ نہ ممکن سی بات تھی.
زین منصور نے ایک لمحے کو اپنی دھڑ کن کو بڑھتا ہوا سا محسوس ہوا . سات سال کاعرصہ کچھ کم نہیں ہوتا . کیا سات سال کے بعد وہ واقعی اسے دیکھ پاے گا؟ اور تب کیا ہوگا اگر اس نے اسے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا یا پھر پہچان لینے کے باوجود وہ اس سے گفتگو کی ہی روادار نہ ہو ؟
بہت سے خود رو سوالوں کے جواب ڈھونڈتے اس نے میٹنگ میں جانے کے لیے تییار ہونا شروع کیا.بہر حال یہ میٹنگ وہ وجہ تھی جس کے لیے وہ کراچی آیا تھا . ت
اسے اس شہر سے کچھ خاص انسیت بھی نہیں تھی مگر جب بھی وہ ائیرپورٹ سے باھر نکلتا اسے ی احساس گھیر لیتا تھا کہ وہ اس شہر میں کہیں موجود یہاں کی ہواؤں میں سانس لیتی ہے
میٹنگ کے طے شدہ سنجیدہ ماحول میں بھی وہ اس امکان کو نہیں بھولا تھا .
اپنے آئی پیڈ پر ادبی میلے کا پورا پروگرام کھولے وہ سکرین پر زیادہ اور میٹنگ کی طرف کچھ کم متوجہ تھا
شام چار بجے اس کے لکھے انگریزی ناول کی افتتاحی تقریب تھی. وہ لکھتی تھی مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ پروفیشنل ادیب بن چکی ہوگی
اس نے سکرین پر نظر انے والا وقت دیکھا . بارہ بج چکے تھے اور اسے کسی بھی حال میں چار بجے کارلٹن ہوٹل پنھچنا تھا.
سات سال بعد ہی سہی اس نے ازمینہ شمس کے رو بہ رو جانے کا فیصلہ لے کر لیا تھا.
Comments
Post a Comment