شام شہر یاراں ......5

 زین نےگھڑی  دیکھی  . دس بجنے  میں ابھی ایک گھنٹہ بارہ منٹ باقی تھے . وہ جیسے ایک ایک پل  گن رہا تھا . 

ازمینہ اب تک موسیقی کے  پھیلاے ہوے سحر میں گم تھی، شاید اسی لیے اسے وقت کے اتنے تیزی سے گزرنے کا احساس نہیں ہو رہا تھا 

وہ لوگ اب اوپر لے جانے والے گول چکر دار زینے پر تھے . ازمینہ اپنی اونچی ایڑی کے جوتوں کی وجہ سے سہج سہج   کر قدم اٹھا رہی تھی. زین اس کے بلکل پیچھے تھا. جب اچانک سے  سمندر کی لہروں میں کوئی تلاطم اٹھا اور کشتی ڈول اٹھی. ازمینہ کا پیر سیڑھی میں موجود خلا میں اٹکا اور وہ بری طرح لڑکھرائی. 

زین نے اسے سہارا دینے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے وہ خود کوگرنے سے بچا چکی تھی 

 کچھ دیر ریلنگ تھامے وہ دونوں یوں ہی کھڑے  رہے . شاید کوئی موج بے قرار تھی   

کہیں طوفان تو نہیں آ رہا زین؟

وہ سچ مچ میں خوف زدہ  تھی

"کاش " وہ کھل کر ہنسا تھا . مگر تم بے فکر ہو جاؤ ، نہ یہ ٹائی ٹینک ہے اور نہ تم روز !

 "زین تم بھی حد کرتے ہو یہاں خوف سے میری جان  نکل رہی ہے وہاں تمھیں مذاق سوجھا  ہے "

"کچھ نہیں ہو رہا تمھیں، ابھی بہت جینا ہے تم نے، چلو اوپر چلو شاباش، اور پہنو ہائی ہیل ! بدلنا نہیں ہے نہ تم نے . وہاں اسلومیں سب   جوتوں کی دکان والے تمھیں پہچانتے تھے اب یہاں کراچی میں بھی یہی صورت حال ہوگی ہے نہ؟"

"جی نہیں . میں صرف مخصوص دکانوں سے جوتے خریدتی ہوں"

باتیں کرتے کرتے وہ اپنا خوف بھلا کر اب اپر عرشے پر آ چکی تھی

"وہ بھی سر پکڑ لیتے ہونگے جب تم دکان میں داخل ہوتی ہوگی اور میچنگ کے کپڑےنکال کر کہتی ہوگی اس کلر کا جوتا چاہیے."

ازمینہ نے گھور  کر اسے دیکھا تھا

"تم کچھ بھولتے ہو؟؟"

"اتنی خواری کون بھول سکتا ہے. وہ میچنگ کے کپڑے اور سویٹر کے شاپنگ بیگز اٹھانا میرا کام ہوتا تھا. ایک بار تو تنگ  آ کر امی  سے میں نے  تمہاری شکایات بھی لگائی تھی"

"کتنے فضول ہو تم زین، آنٹی سے میری شکایتیں کرتے تھے تم!"

"اس دن جو تم نے حد کر دی تھی، کیوں کہ میرا ٹریک سوٹ پرپل رنگ کا ہے اس لیے مجھے جوگرز بھی اسی رنگ کے چاہیے، ماں کے پاس جا کے دکھڑے نہ روتا تو اور کیا کرتا "

ازمینہ بے ساختہ ہنسی تھی

"یہ تو  واقعی زیادتی کری دی تھی میں نی تمہارے ساتھ. آئ یم سوری !"

وہ دونوں عرشے کی ریلنگ سے جھک کر سمندر میں اترنے  والے مدو جزر کو دیکھ رہے تھے . چاند  چپ چاپ تھا مگر ستارے جھلملا رہے تھے اور اپنے ہونے کا احساس دلا رہے تھے

":ہاں بالکل . کچھ تو شرمندگی ہونی چاہیے تم کو، جس دن تم آ کر کہتی تھیں زین  "شو شاپنگ" اس دن میری حالت تباہ ہو جاتی تھی. مگر امی کہتی تھیں ساری  زندگی تم نے یہی کام کرنا ہے اس لیے عادت ڈال لو"

ازمینہ نے مڑ  کر اسے دیکھا تھا . صرف ایک لمحے کے فرق سے زین کو احساس ہوا تھا کہ وہ کیا کہ گیا ہے . اس بات کا یہ کوئی مناسب  مقام تو نہیں تھا

ازمینہ ایک بار پھر  رخ موڑ کر سمندر کی جانب دیکھنے لگی، زین نے  اپنے بالوں میں بے اختیار  ہاتھ پھیرا

دونوں کے درمیان اب بہت دور تلک ایک شور مچاتی خاموشی  تھی

"ازمینہ " اس نے ریلنگ پر رکھے ازمینہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا

وہ مستقل سمندر کی جانب رخ کے کھڑی رہی

"مجھے اندازہ ہے  کہ تمہارے لیے یہ ذکرتکلیف  دہ ہے مگر کچھ باتوں کو دہرانا ضروری ہوتا ہے میں نے سارا سے شادی کا فیصلہ کر کے صرف تمھیں دکھ نہیں دیا تھا ، سب سے زیادہ تکلیف تو میری ماں کو ہوئی تھی.. حالاں کہ کچھ بھی طے نہ ہونے کے باوجود کم از کم میری فیملی میں سب کو یہ اندازہ تھا کہ جب کبھی میری شادی کی باری آئی تو انہیں کسی لڑکی کو ڈھونڈنا نہیں ہوگا. یہ سب  اتنا صاف اور شفاف تھا جیسے کتاب میں لکھے حرف  جو طے  شدہ ہوتے ہیں."

"زین پلیز . ہم کوئی اور بات کر سکتے ہیں؟" اس کی آنکھوں میں درد کی لہر تھی ، وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پا رہی تھی

"میں نے  سات سال انتظار کیا ہے اس موقع کا، پلیز میری بات سن لو "

 "ازمینہ  مجھے کہ لینے دو کہ جب تک سارا سے نہیں ملا تھا ، مرے پاس تمہارے سوا کوئی دوسرا آپشنز نہیں تھا. ہم بہترین دوست تھے، ہر وقت کے ساتھی ، childhood sweethearts. "

"لیکن نصیب اور تقدیر پھر اور کیا ہوتی ہے کہ تمہارے ہوتے ہوے میں سارا سے ملا اور سب کچھ بدل گیا. وہ میرا نصیب تھی اور تم نہیں. شاید اسی لیے صرف چھ مہنوں میں میں اسے پرو پوز کر چکا تھا ، تم سمیت اپنے سب گھر والوں کو ناراض کر کے "

ازمینہ کی آنکہ ایک لمحے کو بھر آئی تھی، سب بھولے بسرے دکھ یاد انے لگے تھے

"تم ٹھیک کہتی ہو میں نی کیمپس کی سب سے خوبصورت لڑکی کو پسند کیا تھا ،  اور اس بات کا احساس سارا کو مجھ سے بھی کہیں زیادہ تھا ، اسے اپنے حسن پر  بہت ناز تھا "

"تھا؟" ازمینہ چپ نہ رہ سکی 

"تھا . کیوں کہ پھر اس سے وہ ناز چھین  لیا گیا|

"زین؟" اس نے جیسے سانس روک کر پوچھا تھا 

" ہم بہت خوش تھے ازمینہ، کوئی خوبصورت ساتھی ساتھ ہو تو سب کچھ خوبصورت لگنے لگتا ہے . تین سال   گزرے پتا ہی نہیں لگا، میں دبئی میں بہت اچھی طرح  سیٹ  ہو چکا تھا . ہم اپنی پہلی اولاد کے دنیا میں انے کا انتظار  کر رہے تھے جب وہ خوفناک حادثہ ہوا جس نے ہماری زندگی بدل دی. اور یہ سب میری لاپرواہ ڈرائیونگ کا نتیجہ تھا، میرا تو صرف بازو فریکچر ہوا مگر سارا کو بہت خراب زخم لگے، شیشے کے ٹکڑے اس کے چہرے میں چلے گئے، ہمارا بچہ اس دنیا میں نہ آ سکا، سارا کوما میں چلی گئی . لیکن جس بات نی سب سے زیادہ اس پر اثر ڈالا وہ یہ تھا کہ اس کا چہرہ بہت  خراب ہو گیا تھا. اس کی خوبصورتی کہیں غایب  ہو گئی تھی، وہ آئینہ دیکھ کر چیخیں مارنے  لگتی، اور اب وہ ایک ڈپریشن  کی مریضہ بن چکی ہے. "

ازمینہ کے ہاتھ پر رکھا اس کا ہاتھ کانپنے لگا 

اسنے  زین کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا . اس کا دل رو رہا تھا ، وہ تو نہیں جانتی تھی  کہ زین اتنے کڑے  حالات  سے گزر رہا ہے 

"زین میں آنٹی سے بھی تو ملی تھی ، انہوںنے  تو کوئی ایسا ذکر نہیں کیا "

"وہ میری ماں ہیں ازمینہ . وہ مجھے مجھ سے زیادہ جانتی ہیں. اس مشکل وقت میں اگر وہ مجھ سے تمارا اور تم سے میرا ذکر کر دیتیں تو شاید یہ ایسے ہوتا کہ ہمارے گزرے خواب پھر سے جاگ اٹھتے ، میں تم کو پھر سے ڈھونڈنے لگتا . اور تمہاری زندگی الگ متاثر ہو جاتی. وہ بجھی ہوئی چنگاری کو کیوں کریدتیں "

"وہ چنگاری جو کبھی بجھی ہی نہیں " ازمینہ نے جیسے ہواؤں میں سرگوشی کی 

"یہ بات شاید تم جانتی ہو یا  شاید میں. لیکن ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہیں. یہ تو ایک راز ہے ازمینہ جس کا  گواہ ہمارے دلوں کے علاوہ اور کوئی ہو نہیں سکتا"

کب سے مچلنے والا اس کی آنکہ کا آنسو اب بہ نکلا تھا. اتنے سالوں کو فرقت میں وہ اسی آگ میں تو جلتی رہی  تھی  کہ وفا کے اس سفر کی ووہ تنہا مسافر تھی  اور وہ کہیں نہیں تھا 

مگر آج زین منصور نے جیسے اسکے چھالوں پر کوئی مرہم رکھ دیا تھا 

وہ صرف childhood sweethearts نہیں تھے .

ان کا ساتھ  تو ابدی تھا 

کچھ مسافتیں بے انت ہوتی  ہیں . کچھ ساتھ ہمیشگی کے ہوتے ہیں ، کچھ کہانیاں  ابتدا تو ہوتی ہیں مگر ان کا کوئی اختتام نہیں ہوتا 

کچھ کردار مکمّل ہو کر بھی ادھورے رہتے ہیں 

وہ دونوں اپنے اپنے مقام پر چپ اوڑھے کھڑے تھے. صرف سمندر شور کر رہا تھا 

زین جانتا تھا کشتی اپنا رخ واپسی کے لیےموڑ  چکی ہے ، دس بجنے والے تھے اور وہ اسے مزید رو کنے کا کوئی حق نہیں رکھتا تھا 

 ازمینہ وقت کی آہٹ کے احساس سے کافی دور اب تک سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی ، زین کا ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھوں میں تھا 

کچھ دور اب ہوٹل کی روشنیاں جھلملاتی ہوئی نظر انے لگی تھیں 

صرف چند لمحوں کا ساتھ اور تھا اور پھر اس نے چلے جانا تھا 

"ازمینہ " وہ جیسے اسے جگانے لگا 

"هم " وہ لوٹی 

"دس بجنے والے ہیں "

"اتنا جلدی؟" وہ بے ساختہ بولی. اس کے لہجے میں بے یقینی تھی 

"ہاں اتنا جلدی" وہ مسکرایا 

کشتی ساحل سے آ لگی تھی اور لنگر انداز ہو رہی تھی. 

ازمینہ کی سانسیں ایک بار پھر بے ترتیب ہونے لگیں . مگر وقت تو بے رحم تھا

زین نے  اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کیا اور اور اسے شانوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی جانب موڑا 

"جاؤ  سنڈریلا . اس سے پہلے کہ گھڑی  کا کانٹا بارہ پر آ جاتے  اور تمھیں ان ہائی ہیلز کے ساتھ بھاگنا پڑے اور تم اپنا ایک جوتا یہیں چھوڑر جاؤ   " وہ مسکرایا . مگر اس کی آنکھوں میں عجیب تھکن تھی " میں پرنس چارمنگ تو نہیں ہوں "

وہ کچھ نہ کہ سکی ، یہ بھی نہیں کہ اس کے لیےووہی پرنس چارمنگ تھا. یہ بھی نہیں کہ  وہ اپنا ایک جوتا یہاں  جان بوجھ کر بھول جانا چاہتی ہے. اگلی ملاقات کے لیے کوئی توامید   مل سکے 

زین نے  اپنے ہاتھ اس کے شانوں سےہٹا ے اور کچھ دور ہو کر اسے دیکھنے لگا 

"جاؤ" 
 "خدا حافظ" وہ سر جھکا کر بولی اور زینے کی جانب چلنے لگی 

وہ زینے تک پنہچ چکی تھی  جب اس نے اک آس  پر پلٹ  کر دیکھا 

زین نے  خدا حافظ کا جواب نہیں دیا تھا . وہ حیرت زدہ تھی 

وہ اس کی جانب دیکھ بھی نہیں رہا تھا ، وہ صرف اس کی پشت دیکھ سکتی تھی 

 بھیگی پلکوں کو صاف  کرتے ہوے وہ  سیڑھی اترنےلگی 

. اسے آخری لمحے تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی تھی کہ کچھ کہانیوں کا اختتام نہیں ہوتا . وہ جاری رہتی ہیں، 



Comments

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)