شام شہریاراں ..... 3
بہت خاموشی تھی. بہت کچھ بولتی ہوئی خاموشی.آ س پاس کا ہنگامہ، شور، گہما گہمی سب کہیں پاس منظر میں چلے گئے تھے . ان دونوں کے درمیان خاموشی گفتگو بن کر گونج رہی تھی . ازمینہ کو لگا یہ چند لمحے بہت قیمتی ہیں ، شاید انہی لمحوں نے آیندہ انے والے وقت کا رخ طے کرنا تھا. پھر اس نے زین کو کہتے ہوے سنا
"کیا ہم کچھ دیر بات کر سکتے ہیں؟ "
" اس نےاثبات میں سر ہلاتےہوے پیچھے موجود طویل قطار کو دیکھتےہوے کہا " مگر شاید کچھ دیرہوجا ے .
میں انتظار کر رہا ہوں" وہ جتنی خاموشی سے پیش منظر میں آیا تھا اتنی ہی خاموشی سے پس منظر کا حصّہ بن گیا "
وہ کسی روبوٹ کی طرح آٹوگراف لکھتی رہی، تصویریں بنواتی رہی، انٹرویو دیتی رہی. مگر اس کا دھیان اب بٹ چکا تھا .وہ . اس ساری گہما گہمی سے اب اکتا گئی تھی. زین منصور نی اس کی توجہ بانٹ لی تھی . اور وہ ہمیشہ ہی ایسا کیا کرتا تھا
وہ ہال سےباہر آئی تو کافی دیر ہو چکی تھی. اس کی متلاشی نظریں زین کو ڈھونڈ رہی تھیں. عجیب خدشے تھے . یہی کہ وہ انتظار سے اکتا کر واپس نہ جا چکا ہو.
ہیلو" اپنے عقب سے آتی آوازپر اس نےپلٹ کر دیکھا . نہیں وہ واپس نہیں گیا تھا "
"سوری کافی وقت لگ گیا مجھے "
آپ تو اب سیلبرٹی ہیں، وقت تو لگنا تھا جی " اس کہ لہجے میں شرارت تھی "
وہ مسکرادی
"کراچی میں کب سے؟"
". کل ہی پنہچا ہوں. میٹنگ تھی ایک "
"مجھے اب تک یقین نہیں آ رہا. ایک لمحے کو لگا تھا خواب دیکھ رہی ہوں"
تم جاگ رہی ہو اور میں حقیقت ہوں " اس نے دھیرے سے ایک انگلی سے ازمینہ کے ہاتھ کو چھوا "
وہ چپ سی رہ گئی . ادھر وہ بھی خاموش
طویل مدّت کے بعد کسی ہمدم دیرینہ سے ملتے ہوے لفظ یوں ہی گم ہو جایا کرتے ہیں. سو وہ دونوں بھی لفظ ڈھونڈ رہے تھے
بہت مبارک ہو. مجھے بہت فخر محسوس ہوا تمہیں یوں دیکھ کر." زین نے کہا"
شکریہ" وہ ہولے سے بولی "
"مگر باقی سب کہاں ہیں ، تمہاری فیملی، شوہر، بچے؟. اتنے اہم موقے پر سب کو ہونا چاہیے تھا "
کسی کو دلچسپی نہیں ہے مرے اس کام سے . وہ سمجھتے ہیں یہ میرا شوق ہے تو سب نے یوں ہی مجھے شوق پورا کرنے کے لیے اکیلا چھوڑا ہوا ہے
زین ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا جب کسی ادھیڑ امر شخص نے آ کر ان دونوں کی گفتگو میں مداخلت کی. وہ کوئی سینئر ادیب .
تھے جو ازمینہ کو کتاب کی رو نمائی پر مبارک باد دے رہے تھے
ازمینہ نے معذرت خواہانہ نظروں سے زین کیطرف دیکھا. وہ ویسے ہی پر سکوں کھڑا تھا جیسے چند لمحے پہلے تھا . کافی دیر وہ بزرگ ادیب ازمینہ سے باتیں کرتے رہے. زین خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا. کتنی پر اعتماد تھی وہ. اسے معلوم تھا کہ کب کہاں کس سے کس انداز میں گفتگو کرنا ہے
رکھ رکھاؤ تو اس میں شروع سے ہی تھا . وقت کے ساتھ ساتھ اس کے آداب اور انداز سب میں مزید نکھار آ گیا تھا.ا
"کہیں اور چل کر بیٹھتے ہیں زین . یہاں کھڑے رہے تو پھر سب سے ملنا پڑے گا"
"کوئی ایسی جگہ ہے یہاں جہاں آرام سے بیٹھ کربات چیت ہو سکے ؟"
"مشکل ہے ویسے . مگرڈھونڈتے ہیں"
"وہ ہوٹل لابی سے ہوتے ہوے اب باھر لان کی جانب آ گئے تھے مگر کوئی ایسا کونہ نہیں تھا جہاں تنہائی اور سکوں میسّر ہوتا . وسیع لان کے کنارے جہاں سمندر شروع ہوتا تھا وہاں سفید رنگ کی ریلنگ لگی تھی . وہ دونوں اس ریلنگ کے ساتھ آ کر کھڑے ہو گئے. وہیں ساتھ ہی پنڈال میں اسٹیج بنا تھا ،بڑی بڑی سکرینز لگی تھیں اور چند غیر ملکی اور ملکی ادیب بیٹھے گفتگو کر رہے تھے
ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے. جن کو کرسی مل گئی تھی وہ بیٹھ چکے تھے باقی سب کھڑے ہو کر اسٹیج کی جانب متوجہ تھے . زین کو لوگوں کے ادبی جوش و خروش کو دیکھ کر از حد حیرت ہو رہی تھی. وہ خود کوئی ادبی انسان نہیں تھا نہ اسے کتابوں سے کوئی خاص شغف تھا. شاید اسی لیے دوسروں کی دیوانگی اس کی سمجھ سے با لا تر تھی
اور اسلام آباد میں سب کیسے ہیں " ازمینہ نی پوچھا "
"سب ٹھیک ہیں . مگر میں اور میری فیملی اب وہاں نہیں ہیں. مجھے دبئی گئے ہوے بھی اب چار سال ہو گئے ہیں "
"جانتی ہوں:"
جانتی ہو؟ . کیسے؟ " زین کو حیرت ہوئی. وہ ہمیشہ ایسے ہی اسے حیرت زدہ کرتی تھی "
"وہ مسکرائی " میں گئی تھی اسلو پچھلے دو سالوں سے جا رہی ہوں آنٹی سے ملی تھی .
" تم امی سے ملی تھیں؟. لیکن انہوں نے تو کبھی ذکر نہیں کیا"
ضروری نہیں سمجھا ہوگا" وہ ہولے سے مسکرائی . اسے زین کو حیرت زدہ کرنا ہمیشہ سے اچھا لگا کرتا تھا "
ہوا کچھ اور تیزی سے چلنے لگی تھی ، ازمینہ کے بال اڑ کربار بار اس کے چہرے پرآتے تھے اور وہ انہیں کان کے . . . پیچھے کر تی تھی. ہر تھوڑی دیر بعد وہ مڑ کر وہاں دیکھنے لگتی جہاں اسٹیج بنا تھا اور کوئی ادبی سیشن جاری تھا.
وہ کچھ دیر خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا . اسے لگا وہ پہلے سے کہیں زیادہ پرکشش ہو گئی ہے . اس کے مزاج میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ تھا ، کوئی مختلف سا تاثر تھا اس کی شخصیت میں جو اسے چند سال پہلے والی ازمینہ سے بھی زیادہ خوبصورت بنا رہا تھا
وہ کسی نیوز چینل کا نمائندہ تھا جو ازمینہ کو فارغ کھڑے دیکھ کر اس کا انٹرویو کرنے وہاں چلا آیا تھا .
ان کی گفتگو پھر سے ادھوری رہ گئی تھی .
کافی دیر بعد وہ پھر اس کے پاس چلی آئی .
"یہ سب یونہی چلے گا شاید ہم سکوں سے بات نہیں کر سکیں گی.آئی ایم سوری" وہ شرمندگی سے بولی.
کیا ہم کہیں اور جا سکتے ہیں؟" وہ جانتا تھا اتنے سالوں بعد یہ سوال کچھ مناسب نہیں تھا مگر پھر بھی اس نےپوچھ لیا "
نہیں. یہ ممکن نہیں ہے میرے لیے" اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی"
"یہاں کب تک ہو "
رات دس تک . آج کے دن کے لیے خصوصی اجازت لے کر آئی ہوں " وہ مسکرائی "
وہ جانتا تھا اس کے شوہر کی اجازت کے بغیر وہ کہیں نہیں جاتی تھی
اسی ہوٹل کی پرمسس میں ، اگر میں کوئی ایسا انتظام کر لوں جہاں ہم سکوں سے بات کر سکیں تو کیا رات دس تک تم مجھے وقت دے سکتی ہو؟
ازمینہ کو لگا ایک بار پھر اس کی سانس تھامنے لگی ہے
اتنے سالوں کے بعد آج اگر وہ ملا بھی تھا تو صرف رات دس بجے تک. پھرجہاں اس کے پیروں میں زنجیریں تھیں، وہاں آزاد تو وہ بھی نہیں تھا . وہ یہ موقع کیسے گنوا سکتی تھی. مگر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس ہوٹل کی پرمسس میں ایسا کوئی موقع انہیں میسّر نہیں آ سکے گا . اسے عجیب بے نام اداسی نے ان گھیرا.
"میں یہیں ہوں زین منصور. رات دس بجےتک. دیکھتے ہیں ہم آج بھی بات کر سکتے ہیں یا نہیں" .
وہ اسے وہیں سمندر کنارے تیز ہوا میں اڑتے ہے بالوں سمیت چھوڑ کر جا چکا تھا
----------------------------------------------------------------------------------------------------
اسے واپس انے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا. ازمینہ کو لگا وہ مایوس ہی لوٹے گا . اتنے ہزاروں کی تعداد میں موجود لوگوں کے درمیان کوئی تنہائی کا گوشہ کیسے مل سکتا تھا . مگر پھر بھی ایک موہوم سی اس پر وہ اسی جگہ کھڑی رہی جہاں وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا .
وہ خاموش کھڑی اسے اپنی جانب اتا دیکھتی رہی
سیاہ ٹی شرٹ اور نیلی جینز میں وہ یونیورسٹی کے دنوں والے زین سےکچھ کم ہینڈ سم تو نہیں لگ رہا تھا . مگر اس کی آنکھیں تھکی تھکی سی تھیں. اور اس کے بالوں میں کہیں سرمئی رنگ جھلکتا تھا
"چلیے مادام "
"کہاں"
"جہاں میں لے جا رہا ہوں"
"مگر کہاں:"
"DO you trust me azmeena? If yes then do not ask questions"
پھر اس سے کچھ نہیں بولا گیا . وہ خاموشی سے اس کے پیچھے ہو لی
وہ اسے وہاں لے آیا جہاں سے سمندر کی سیر کے لیے کشتیاں لی جاتی تھیں. مگر وہ کوئی چھوٹی سی کشتی تو نہیں تھی. وہ تو کوئی جہاز نما کشتی تھی جس پر ڈنر پارٹیز دی جاتی تھیں. ایسے ہی کسی کشتی میں وہ ایک پارٹی میں شامل ہو چکی تھی
مگر اس نے اب کوئی سوال نہیں کرنا تھا. وہ زین کو ناراض نہیں کر سکتی تھی. اس لیے خاموشی سے اس کے ساتھ کشتی میں چلی آئی
اوہ اسے اپر لے آیا تھا وہ کوئی گول چکر دار سیڑھی تھی جو کشتی کے عرشے پر لے کر جاتی تھی. ازمینہ اس کے ساتھ اپر آ گئی. اس کی نظریں اس پاس لوگوں کو ڈھونڈتی رہیں لیکن ابھی تک اسے وہاں کوئی اور دیکھے نہیں دیا تھا.
ان کےاوپر آ تے ہی کشتی چل پڑی بہت آرام سے، دھیرے دھیرے وہ دونوں ہوٹل میں موجود ہجوم سے دور ہوتے جا رہے ازمینہ نے پلٹ کر زین کو دیکھا
یوں جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہومگر کہ نہ پا رہی ہو
وہ بے ساختہ مسکرایا تھا
"کیا کہنا ہے کہو، نہیں ڈانٹوں گا:اب "
اسے پتا تھا وہ اس کے غصّے سے بہت ڈرتی تھی
"اور سب لوگ کہاں ہیں؟"
اور سب کون؟"
"اتن یبڑ ی بوٹس یوں خالی تو کبھی نہیں جاتیں . اس میں تو ہمیشہبہت لوگ ہوتے ہیں."
نہیں جاتی ہونگی لیکن آج ایسا ہی ہے. آج اس بوٹ میں صرف ہم دونوں ہیں" اب ازمینہ کو حیرت زدہ کرنے کی باری اس کی تھی ، وہ مستقل مسکرا رہا تھا
زین" وہ حیرت کے باع ث کچھ کہ نہ سکی"
تم پاگل تو نہیں ہو؟ . کیسے کیا تم نے یہ؟"
تمہارے ساتھ ہوٹل کی حدود میں پرسکون وقت گزا رنے کے لیے میں بس اتنا ہی کر سکتا تھا ازمینہ . ہمارے پاس صرف تین گھنٹے ہیں اور ہم نہیں جانتے یہ لمحے پھر کبھی ملیں گے یا نہیں
اس کی آواز میں کوئی خلش تھی جو ازمینہ کے دل تک پنہچ رہی تھی. اور سمندر گواہ ہو رہا تھا
hmm...I am enjoying this story very much. Its good that you are determined to complete it...well I read your previous reply...do let me know when and where this story will be published...and keep writing I like the story pace...hmm...good work !
ReplyDeleteI have been given a deadline , the reason for me to finish it on time. Ill share the link once its published IA, Thanks for your comments they work like confidence booster.
ReplyDelete