شام شہر یاراں .......2

اور اگر وہ یہ سمجھ  رہا تھا کہ  ہوٹل کارلٹن پہنچتے ہی اسے وہ نظر آجاتے  گی تو وہ کتنا غلط تھا. وہاں تو ایک جم غفیر تھا. اور گویا ایک ہیجان بپا تھا . صرف کراچی سے تعلّق رکھنے والے ، ادب کے شوقین وہاں نہیں تھے ، وہاں تو ملک کے مختلف    کونوں سے لوگ آ پنہچے تھے
بیرون ممالک سے آنے   والے مہمان ان کے علاوہ تھے. 

کارلٹن کی وسیع اور خوبصورت عمارت کئی ہزار گز پر پھیلی تھی، اور اس عمارت  کو  چاروں جانب سے سبزے کے قطعوں نے گھیرا ہوا تھا. مگر جو بات اسے دیگر ہوٹلوں سے مختلف بناتی تھی وہ ہوٹل سےجڑا  سمندر کا کنارہ تھا  جہاں سے ایک تو پرلطف ہوا کے نرم جھونکے آتے تھے اور دوسری جانب اس  کے کنارے لنگر انداز وہ مختلف کشتیاں بھی تھیں جو آپ کوسمندر  کی سیر کی دعوت دیتی دکھائی دیتی تھیں.   

ہرعمر  ، ہر طبقے ، ہر رنگ ، ہر تناسب کے لوگ . اور صرف لوگ ہی لوگ. 
طرح دار خواتین ، نیک سک سے درست مرد حضرات ،نوجوان نسل کے نمائندہ افراد ، کون نہیں تھا وہاں . اور سب ہی مصروف، 
   ایک ہال سے دوسرے ہال میں آتے  جاتے ہوے ،کتأبو ں کے سٹالز پر بھاؤ تاؤ کرتے ہوے یا فوڈ سٹالز سے لطف اندوز ہوتے ہوے.

کچھ لمحوں کے لیے تو زین منصور کو یہ بھی بھول گیا کہ وہ وہاں آیا کیوں تھا. اسےبہت  خاموشی اور پر تکلّف  سی میٹنگ    کے بعد یہ ماحول نہایت دلچسپ لگا تھا شاید یہی وہ کراچی تھا جسے  ازمینہ شمس چھوڑر کر پھر اسلام آباد  واپس نہیں .آ سکی تھی  

شام کے چار بجنے والے تھے ، ازمینہ کی کتاب کی رونمائی "مہاراجہ"  ہال میں  ہو رہی  تھی ، وہ ہوٹل کے نیم دائرے نما لابی میں گھومتا ہوا مہاراجہ تک پہنچ چکا تھا . مگر اندر پہلے  ہی اس قدر رش تھا کہ بیٹھنے کو تو کجا کھڑے ہونے کو بھی .جگہ مشکل سے ہی بن پا رہی تھی.کافی جدو جہد  کے بعد اسے ہال  کے دائیں کونے میں کھڑے ہونے کی جگہ مل پائی. 
سامنے اسٹیج بنا تھا جہاں تین کرسیاں، میز اورمائیک  رکھے تھےمگرابھی تک وہاں کوئی  نہیں تھا. زین کو لگا اس کی سانسیں کچھ بے ترتیب ہو رہی تھیں. اس نے ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑا میلے  کا پروگرام دیکھا .یہ وہی مہاراجہ حال تھا جہاں اس نے آنا تھا. 
فرش پر بیٹھنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد نوجوان لڑکے  لڑکیوں کی تھی. شاید وہ پہلے ہی کافی مشور نوولسٹ تھی . اسے اپنی بےخبری پر افسوس ہونے لگا. 

چند لمحے مزید گزرے تھے اور ایک خواب کی سی کیفیت میں اس نے ازمینہ  کے ساتھ ایک اور خاتون کو اسٹیج پرآتے  ہوے دیکھا. وہ دونوں اب اپنی اپنی کرسی سنبھال چکی تھیں. ہال  میں شور اب بہت  بڑھ چکا تھا، کیمرے فلش جگ مگا رہے تھے ، میزبان خاتون مائیک پر لوگوں سے خاموش ہونے کی درخواست کر رہی تھی. مگر وہ یہ سب نہ تو دیکھ رہا تھا نہ سن رہا تھا . اس کی ہر حس صرف اس کی جانب متوجہ تھی جو اس کے  عین سامنے برا جمان گہرے سبز اور براؤن رنگ کے   خوبصورت سے کپڑوں میں  انتہائی پروقار لگ رہی تھی .شانوں کے گرد براؤن شال لپٹے پوری توجہ سے میزبان کے سوال سن رہی تھی. زین نے اس کے پیروں کی جانب دیکھا . وہی میچنگ جوتے جو اس کی کمزوری تھے.
کتنا وقت گزر گیا تھا وہ آج بھی کچھ نہیں بھولا تھا . اسے اپنے آپ پر حیرت ہو رہی تھی 

اور پھر ہال  کے ہر کونے میں اس کی آواز گونجنے لگی . وہ بول رہی تھی اور سب سن رہے تھے  اور ایسا تو ہمیشہ ہوا کرتا تھا، اسکول کالج یونیورسٹی جہاں بولنے کی بات آتی تھی سب تمغے ازمینہ کے نام ہی ہوا کرتے تھے. اس نے اب اپنے ناول کے کچھ حصّے پڑھ کر سنانے تھے . ہال میں جہاں پہلے جس قدر شور تھا ، اس وقت اسی قدر سکوت تھا، صرف اس کی آواز کی بازگشت تھی، زین نے چند لمحوں کے لیے آنکھوں کو بند  کیا ہاں وہ یہ آواز بھول گیا تھا ، سات سال بہت طویل عرصہ ا ہوا کرتا ہے.اور وقت تو ازل سے بے رحم  ہی تھا   

تالیوں کی گونج اسے ہال کے ماحول میں واپس لے کر آئی . اب حاضرین کے سوالات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور وہ نہایت شگفتگی  سے جواب دے رہی تھی. اسکی مسکراہٹ اب بھی اتنی ہی پر کشش تھی. اس کی آنکھوں میں اب بھی جگنو چمکتے تھے. وقت شاید ازمینہ شمس کے لیے ٹھہر گیا تھا 

ایک گھنٹہ جسے چند لمحوں میں بیت گیا تھا .اس کا سیشن ختم ہو گیا تھا  میزبان خاتون لوگوں سے درخواست کر رہی تھی کہ جن لوگوں نے ازمینہ شمس سے کتاب پر دستخط لینے ہیں وہ ایکقطار  بنا کر کونے والی میز کے پاس پہنچ جایں  
مگر لوگوں نے تو پہلے ہی اسٹیج کو گھیر رکھا تھا ، وہ سب ازمینہ کے آٹوگراف لینا چاہتے تھے اور اس کے ساتھ   تصویر بنوانا چاہتے تھے.
 پتا نہیں کتنا وقت گزرا . دوسرے سیشن کے لیے میزبان آ چکے تھے. ازمینہ اب کہیں نظر نہیں آ رہی تھی، لوگ ادھر    ادھر ہونے لگے تھے. اچانک زین کو لگا کہ اسوقت  اسے  ازمینہ کو ڈھونڈنا اور اس سے ملنا تھا . وہ یہ موقع کیسے گنوا سکتا تھا.

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠        

 وہ میز کے ایک طرف بیٹھی کتابیں  سائن کر رہی تھی . ساتھ ساتھ تصویریں بھی بن رہی تھیں لوگوںکی  ایک طویل قطار تھی  .ٹی وی  چینلز  کے نمائندے الگ اس کے آس  پاس انٹرویو کے لیے منڈلا رہے تھے، وہ تھکنے لگی تھی. لیکن کیا یہی وہ وقت نہیں تھا جو اس کی ان تمام برسوں کی محنت کا ثمر تھا . اس نے اپنی کہانیاں یوں ہی تو نہیں لکھ ڈالی تھیں. کہاں دل جلا تھا کہاں زخم لگے تھے   اور اب یہ سب شاید مداوا تھا؟ 

وہ سر جھکا ے لوگوں سے ان کا نام دریافت کر کے کتاب پر دستخط کرتی جا رہی تھی . اور اب ایک اور کتاب کا پہلا   صفحہ اس کے آگے کر دیا  گیا  تھا . اس نے نام پوچھا .آس  پاس   شور کافی زیادہ تھا . اسے ٹھیک سے نام سنائی نہیں دیا  تھا شاید . اس نے دوبارہ نام دریافت کیا اور ساتھ ہی سامنے کھڑے شخص کو دیکھنے کے لیے سر اونچا کیا.

"زین......زین منصور" 

نہیں ، شور زیادہ نہیں تھا . اس نے پہلی بار ہی یہ نام بلکل ٹھیک سنا تھا . اور کوئی اس کا ہم نام ہو بھی کیسے سکتا تھا ؟. 

ہاتھ میں تھاما  قلم، دل کی دھڑکن، تھکی ہوئی سانسیں ، اور اس کو دیکھتی ہوئی آنکھیں، اس ایک لمحے میں سب کچھ تھم  گیا تھا 
اس نے بار ہا ان گزرے برسوں میں یہ خواب دیکھے تھے کہ وہ اس سے کہیں نہ کہیں تو ضرور ملے گی مگر یوں.؟ 

چند لمحے لگے تھا بس چند لمحے . پھر اس نے خود کو سنبھال لیا تھا . ان کچھ برسوں میں یہ سب کچھ ہی  تو  سیکھا تھا . اس نے سر جھکایا اور کتاب پر کچھ لکھنے لگی 

اس کا نام. پہلی بار تو نہیں لکھ رہی تھی وہ، مگر ہاتھ پہلی بار کانپ رہے تھے 

اس نے اب تک جتنی کتابیں سائن کی تھیں سب پر صرف ایک پیغام لکھا تھا 

"لو .... ازمینہ "

پھر اس کتاب پر وہ کچھ اور نہیں لکھ سکتی تھی. فرق صرف یہ تھا کہ اس بار وہ الفاظ لکھتے ہوے اس کا دل بھر آیا تھا.

٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠ 

Comments

  1. hmm...such a beautiful story...I read its part one too...I think you should start writing professionally or may be you are a professional writer...:)

    ReplyDelete
  2. Thanks:) I have been published before many times, may be I should share my previous work too. This story is on insistence of my editor, on a warning note. It will be in print as soon as it is done inshaAllah.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

ڈر لگتا ہے

Mustansar Hussain Tarar . (A gesture of gratitude on 75th birthday)