شام شہر یاراں .......4
افق پر پھیلی شفق کی لالی دھیرے دھیرے اندھیرے میں گم ہو رہی تھی. سمندر کی لہروں کے مدو جزر سے ٹکرا کر آنے والی ہوا کچھ اور خنک ہوگئی تھی
ازمینہ نے سر اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا. اسے لگا کہ ایک عرصے کے بعد وہ اس قدر کھلا اور شفاف آسمان دیکھ رہی ہے. شہر کے ہنگامے اور بھیڑ سے دور اور بلکل الگ تھلگ ، ایسی تنہائی اسے پہلے کب نصیب ہوئی تھی،
چاند بھی موجود تھا ، مگرادھورا تھا. ان دونوں کی طرح.
"نہیں صرف میری طرح." ازمینہ نے فورا ہی اپنے خیال کی تردید کی. "وہ تو مکمّل تھا."
آپ اپنی میڈی ٹیشن سے باہر آنے کا کوئی ارادہ رکھتی ہیں؟" اسے زین کی مسکراتی آواز اس سمندری کشتی کے عرشے پر واپس لے آئی
ریلنگ سے کچھ پڑے ، آرام دہ نشستوں کے ساتھ گاؤ تکیے رکھے تھے اور اس وقت وہ دونوں وہیں بیٹھے ہوے تھے.
میں یہیں ہوں." وہ دھیرے سے بولی "
"کیا سوچ رہی تھیں. مجھے پتا لگ گیا تم اتنا اچھا کیسے لکھ لیتی ہو"
"کیسے؟"
"کیوں کہ تم سوچتی بہت ہو"
"یہی تو ایک ایسا کام ہے جس میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا" وو کہنے لگی".
"ورنہ یہاں تو سانس لینےکے لیے بھی اجازت لینا پڑتی ہے "
"سو لکھنا تمہارے لیے کتھارسس ہے؟"
"ہاں بالکل . جو میں کہ نہیں پاتی ، جو میں کر نہیں سکتی ، وہ میرے کردار کر لیتے ہیں "
وہ مسکرائی
"چلو اچھا ہے ، تم نے کوئی راستہ تو ڈھونڈ نکالا ہے، بہت سے لوگ یہ بھی نہیں ڈھونڈ پاتے " وہ شانےاچکاتے ہوے بولا
"مجھے نہیں لگتا تم سمجھ سکتے ہو جو میں کہناچاہ ہ رہی ہوں.
"وہ کیسے؟ "
:جب آپ اپنے پنسدیدہ حالات میں جی رہے ہوں جہاں ہر چیز وہ میسّر ہو جو آپ کی اپنی خواہش ہو، پھر آپ ان لوگوں کو کیسے سمجھ سکتے ہیں جو مسلسل محرومی کے احساس کا شکار ہوں "
اور میرا یہ خیال تھا کہ تم ایک مکمّل زندگی گزر رہی ہو اور بہت خوش ہو؟" زین کے لہجے میں پہلی بار فکرمندی"
تھی
" اور تم شاید یہ خیال کر رہی ہو کہ میں زبردست قسم کی آئیڈیل زندگی گزر رہا ہوں"
وہ چپ رہی . مگر اس کی خاموشی میں سو سوال تھے جنہیں اس لمحے میں صرف وہ سن رہا تھا
"کبھی کبھی ہم تصویر کا وہ صرف رخ دیکھ رہے ہوتےہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں"
کیوں کہ وہی رخ سب سے زیادہ واضح ہوتا ہے" ازمینہ نے کہا "
"مگر ہر تصویر مکمّل نہیں ہوتی. اس کی خامی یا کمی ہر کسی کو دکھائی نہیں دے سکتی."
کم سے کم تم تو یہ بات نہیں کیہ سکتے زین منصور، تمہاری تصویر تو ہر انگل سے مکمّل ہے. تم جسے خوبصورتی اور کاملیت سب کچھ چاہیے ہوتا ہے. تم جو پرفیکشنسٹ ہو. تم جو اعلی برانڈ سے کم کچھ منتخب نہیں کرتے. تم جس نے شادی کے لیے کیمپس کی سب سے خوبصورت لڑکی کو چنا تھا. تم میری بات کیسے سمجھ سکتے ہو؟
وہ سر جھکا ے خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا. چند لمحوں کے وقفے کے بعد جب اس نے سر اٹھا کر ازمینہ کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا، مگر اس کی مسکراہٹ من کوئی تھکن تھی جسے سمجھنے ک لیے ازمینہ کو ابھی بہت محنت کرنا تھی،
"مجھے لگتا ہے ازمینہ یہ تین گھنٹے بہت کم ہونگے اگر میں نی تمھیں یہ بتانا شروع کر دیا کہ کبھی کبھی پرفیکشنسٹ لوگوں کے لیے زندگی بڑے کڑے امتحان لے کر آتی ہے . بہت بے دلی سے وہ مسکرایا تھا.
جو مل گئیں ہیں یہ گھڑیاں انہیں غنیمت جانے": وہ مسکرائی"
"ہم کو ملی ہیں آج یہ گھڑیاں نصیب سے؟"
زین کی بر جستگی پر وہ کھلکھلائ تھی
تمہاری مسکراہٹ سمیت کوئی چیز نہیں بدلی ازمینہ . ایسا لگتا ہے تم وہیں کھڑی ہو اور میں کہیں بہت آگے نکل گیا ہوں "
"ہاں میں وہیں کھڑی ہوں ، حالاں کہ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ تم پلٹ کر دیکھنے والوں میں سے نہیں ہو"
وہ کچھ نہیں بولا. خاموشی سے اسے دیکھتا رہا. وہ اس کے سب شکوے ہی تو سننےکے لیے یہاں لے آیا تھا اسے.
چلو ایسا کرتے ہیں، میں تمہاری سب شکایتیں سنوں گا اور کچھ نہیں کہوں گا، مگر اس سے پہلے بہت اچھے موڈ میں کھانا کھا لیا جاے ؟ :
"مجھے بھوک نہیں ہے زین
مگر میرا تو یہ ڈنر ٹائم ہے. میرا ساتھ دینے کے لیے ہی چلو.
وہ کہتے ہوے اس اونچی سی نشست سے نیچے اتر گیا. اور ازمینہ کو وہاں بلانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا
اس نے اس کے بڑھے ہوے ہاتھ کو دیکھا ، اسے کچھ یاد آیا تھا.
بہت مشکل سے اس بھولی بسری یاد کو واپس دھکیلتے ہوے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کا ہاتھ تھام کر نیچے آ گئی.
ایک منزل نیچے ریسٹورنٹ تھا ، بہت پرتکلف انداز میں سجا ہوا. دھیمی روشنی، لائیومیو زک ، دیواروں پرآراستہ خوبصورت پینٹنگز اور میز پر رکھے تازہ پھول
سب کچھ مکمّل تھا، زین کی طرح،
"میں ایک بار پہلے بھی یہاں آئی تھی زین، اس وقت یہ سب اتنا اسپیشل نہیں لگا تھا"
وہ کسی ٹین ایجر کی طرح خوش ہوتے ہوے بولی.
"کس کے ساتھ آئی تھیں؟" زین نے آنکھیں گھماتے ہوے پوچھا
کسی نیوز چینل والوں نے دعوت نامہ بھیجا تھا. تمہارے خیال میں میں ڈیٹ پر آئی تھی؟"
"نہیں، وہ تم آج آئی ہو. اسی لیے سب اتنا اسپیشل لگ رہا ہے " وہ شرارت سے مسکراتے ہوے بولا."
ازمینہ کھل کر ہنسی. وہ بلکل بھی نہیں بدلہ تھا
وہاں مختلف لوازمات تھے مگر زین نی جتنا شور مچایا تھا اسی قدر کم کھا رہا تھا
ازمینہ کی تو بھوک آج اسے دیکھ کر ہی اڑ چکی تھی.
موسم خوش گوار تھا، اور موسیقی دل نواز.
مجھے یہ وائلن پسند آ رہا ہے ازمینہ. کتنا اچھا بجا رہا ہے نا " زین نے اچانک کہا. "
وہ لوگ اب کافی پی رہے تھے
"بالکل ، میں ابھی یہی کہنے لگی تھی تم سے."
"کوئی خاص گیت جو تم سننا چاہو. any remote memory? we can ask him to play for us. For you and for me?"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے پوچھ رہا تھا اور ازمینہ کو سوچنے میں کوئی دقّت نہیں ہوئی.
وہ آج صرف ایک گیت سننا چاہتی تھی
Norah Jones کا گیت Nearness of you
It's not the pale moon that excites me
That thrills and delights me, oh no
It's just the nearness of you
It isn't your sweet conversation
That brings this sensation, oh no
It's just the nearness of you
That thrills and delights me, oh no
It's just the nearness of you
It isn't your sweet conversation
That brings this sensation, oh no
It's just the nearness of you
وائلن پلیئر دھن بجا رہا تھا اور وہ دونوں اس ایک خاص لمحے میں پھر سے جی رہے تھے
وہ لمحہ جو صرف ان دونوں کے لیے تھا
جسے ختم نہیں ہونا تھا بل کہ ایک خوش گوار یاد بن کر ہمیشہ زندہ رہنا تھا
Comments
Post a Comment