دل مضطرب
دل مضطرب
کوئی اسم ہو
جسے پڑھ کے کم ہو ملالِ جاں
جسے پھونک کر
یہ اداسیاں ذرا کم لگیں
وہ فشارِ رنج ہے روح میں
کہ فضائیں سبز قدم لگیں
میں ہنسوں تو سارے جہان کو
مری ہنستی آنکھیں بھی نم لگیں
دلِ مضطرب
کوئی چارہ گر
جو اسیرِ غم کی دوا کرے
ہو ذرا سکون خدا کرے
جو تھمی تھمی سی ہیں دھڑکنیں
انہیں اب نہ کوئی ملال ہو
دھرے سر یوں سینے پہ چارہ گر
کہ یہ سانس پھر سے بحال ہو
دلِ مضطرب
مرے آسماں سے یہ تیرگی نہیں ہٹ رہی
کوئی گرد سی ہے ملال کی
نہ وہ گھٹ رہی ہے نہ چھٹ رہی
دلِ مضطرب
کوئی نقش ہو جو بصارتوں میں کشید ہو
غمِ زندگی سے کہو
کہ اب مجھے خوشبوؤں کی نوید ہو
کوئی چاند چہرہ
دکھائی دے
تو اداس شخص کی عید ہو
دلِ مضطرب
کوئی اسم ہو۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment