دھند 9
، اپنی ساری سنبھالتی ہائی ہیل کی جوتی میں سہج سہج کر قدم اٹھاتی وہ اوپن ایر کی نشستوں کے قریب پہنچ گئی تھی ، وہاں جہاں سرخ سیڑھیاں دور نیچے اترتی دکھائی دیتی تھیں . بیچ میں اسٹیج بنا تھا جہاں محفل سجی تھی سازندے ساز چھیڑے بیٹھے تھے ، ستار ، طبلے اور ہارمونیم کی مدغم ہوتی لے اور تان عجیب فسوں طاری کر رہی تھی وہ اخیر کی سیڑھیوں پر بنی نشست پر آ کر بیٹھ گئی ، یہاں سے منظر واضح دکھائی دیتا تھا ، دبیز پھیلی دھند کے باوجود . روشنی اس قدر تھی جتنی نگاہوں کو بھاتی ، روشنی اور اندھیرے کی منطق بھی کچھ عجیب ہے ، آپ اگر ان کے ملاپ اور دوری کے بندھن کو سمجھ سکیں تو منظر خوبصورت ہی نہیں ہو جاتا ، پراسرار بھی ہو جاتا ہے کوئی اسرار تھا آج کی شب میں ، یا زینیا شاہ کو محسوس ہو رہا تھا کوئی اسرار جو راز کھول دینے کو بے قرار تھا، مگر وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی کبھی کبھی خوف ہوتا ہے کہ راز کھل گیا تو کیا ہوگا ، کیا وہ سب جو اب ہے ، وہ بھی ہاتھ سے چلا جاتے گا کوئی موہوم سی آس ، کوئی دھیمی سی آنچ کوئی ان کہی سی آہٹ ، کوئی ان سنی سرگوشی ، جس کی آس پر ہم زندگی کیے چلے